کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 495
کی توحید نہیں ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ کن لوگوں کی توحید ہے، دوسرے لفظوں میں توحید کو تین قسموں میں تقسیم کرنے کا ماخذ و مصدر کیا ہے؟ اس اہم سوال کا جواب اس عبارت میں موجود ہے جو مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر کے حواشی میں تحریر فرمائی ہے وہ توحید و شرک سے متعلق اپنی معرکۃ الآراء بحث کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں : ’’قرآن سے پہلے علوم و فنون کی طرح مذہبی عقائد میں بھی خاص و عام کا امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ خدا کا ایک تصور تو حقیقی ہے اور خواص کے لیے ہے، ایک تصور عملی ہے اور عوام کے لیے، چنانچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تین درجے قرار دیے گئے تھے؛ عوام کے لیے دیوتاؤں کی پرستش، خواص کے لیے براہ راست خدا کی پرستش، اخص الخواص کے لیے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ، یہی حال فلاسفۂ یونان کا تھا؛ وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم و حکمت ہی کر سکتے ہیں ، عوام کے لیے اسی میں امن ہے کہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں ۔ لیکن قرآن نے حقیقت و عمل یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رکھا، اس نے خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لیے صفات الٰہی کا ایک ہی تصور پیدا کیا وہ حکماء و عرفاء سے لے کر جہال و عوام تک سب کو ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ایک ہی دروازہ کھولتا ہے۔ اس کا تصور جس طرح ایک حکیم و عارف کے لیے سرمایۂ تفکر ہے، اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لیے سرمایۂ تسکین۔ ‘‘[1] بات بالکل صاف ہو گئی اس لیے نہیں کہ مولانا ابوالکلام کی تحریر میں اس کی دلیل مل گئی، نہیں ، بلکہ اس لیے کہ اولاً تو قرآن و حدیث میں عقیدہ و عمل کے اعتبار سے لوگوں کو مختلف خانوں اور درجوں میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے ثانیاً فنا و بقا اور اتحاد و وحدۃ الوجود کا تصور یا عقیدہ یونان کے بت پرستوں اور ہندوستان کے مشرکوں کا تصور اور عقیدہ ہے۔ اور ہروی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ توحید کی دوسری اور تیسری قسمیں فنا و بقا اور جمع کے قائلین کے لیے خاص ہیں اس طرح صوفیا اسلام کے بنیادی عقیدے توحید الوہیت و عبادت میں بھی اہل اسلام کے ساتھ نہیں ہیں !! صوفیا کے بعض عقائد کا بیان: یوں تو گزشتہ صفحات میں صوفیا کے جن افکار کا جائزہ لیا گیا ہے اور ’’منازل السائرین‘‘ میں بیان کردہ توحید کا جس دیانت داری کے ساتھ تعارف کرایا گیا ہے اس سے ان کے عقائد کا تعین ہو جاتا ہے، پھر بھی یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض بنیادی عقائد بیان کر دیے جائیں ، تاکہ قارئین کو یہ معلوم ہو جائے کہ احسان و تزکیۂ نفس کی مدعی یہ مسلمان نما جماعت درحقیقت ایسے عقائد رکھتی ہے جو ملحدانہ بھی ہیں اور مشرکانہ بھی۔
[1] ص: ۵۲۳-۵۲۵