کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 494
کیونکہ صوفیا کے نزدیک جمع کے معنی ہیں ’’خدا کے ساتھ سالک کا اس طرح جمع ہونا اور متحد ہونا کہ اس کی مشیت، صفات حتیٰ کہ اس کا وجود بھی اس ذات کے ساتھ جمع ہو جائے، غزالی نے اس مقام کو مجازاً اتحاد اور حقیقت کی زبان میں توحید کہا ہے۔[1] حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے منازل السائرین کے مصنف شیخ ابو اسماعیل ہروی کے اس دعوے کی، کہ ’’اس توحید کی جو جھلک حق تعالیٰ نے اپنے منتخب بندوں کے باطن کو دکھائی ہے وہ اس کے بیان اور اس کی تبلیغ سے گونگے اور عاجز رہے ہیں ‘‘ تردید کرتے ہوئے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں دی تھی جس کی وجہ یہ ہے کہ ’’مدارج السالکین‘‘ کے گزشتہ صفحات میں وہ توحید کے تمام پہلوؤں کو پوری تفصیل سے بیان کر چکے تھے اور سورۂ فاتحہ کے مطالب کی بے نظیر تفسیر کرتے ہوئے وہ قرآن و حدیث کے دلائل سے یہ واضح کر چکے تھے کہ اللہ و رسول کے نزدیک مطلوب توحید کیا ہے؟ لیکن میں نے یہ ضروری محسوس کیا کہ ان کی بحث کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے میں قرآن و حدیث سے یہ ثابت کردوں کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور منتخب ترین بندوں : انبیاء اور رسولوں نے کفر و اسلام کے درمیان حد فاصل ’’توحید الوہیت‘‘ کو بیان بھی کر دیا ہے اور اس کی تبلیغ بھی کر دی ہے، لہٰذا ان کی بحث کے درمیان یہ ضروری اضافہ اور ادراج میرا ہے۔ صوفیا کی توحید اہل شرک اور کفر کی توحید ہے: شیخ ہروی نے توحید کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے جو پہلی توحید بیان کی ہے وہ توحید الوہیت و عبادت ہے اور ان کی یہ بات صد فیصد درست اور کتاب و سنت کی صراحتوں کے مطابق ہے کہ یہ توحید اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے، لیکن انہوں نے یہ دعویٰ کر کے کہ یہ عوام کی توحید ہے، یہ صراحت کر دی، بلکہ یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اس توحید کا عقیدہ صوفیا نہیں رکھتے ہیں ، بلکہ ان کی توحید دوسری اور تیسری توحید ہے؛ دوسری توحید کے بارے میں ان کا ارشاد ہے: ((یصح بعلم الفنا و یصفو فی علم الجمع)) ’’یہ توحید علم فنا کے ساتھ صحیح قرار پاتی ہے اور جمع کے علم میں داخل ہو کر خالص ہوتی ہے۔‘‘[2] اور تیسری توحید کے بارے میں فرمایا ہے: ((و إیاہ عنی المتکلمون فی عین الجمع)) ’’اور جمع کی حقیقت بیان کرنے والے اسی توحید کو اپنی مراد اور مقصود قرار دیتے ہیں ۔‘‘ اور چونکہ فنا اور جمع دونوں تصوف کے مقامات اور مدارج ہیں ، اسلام کے نہیں ، جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا، اس لیے صوفیا کی یہ دونوں توحید اہل اسلام کی توحید نہیں ہے، کیونکہ فنا، بقا، فرق، جمع اور جمع الجمع وغیرہ کے قرآن و حدیث میں صراحتاً یا اشارۃً مذکور نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ترجمانی یا ان پر مبنی توحید بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین، محدثین، ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور اہل سنت و جماعت
[1] تصوف اور شریعت، ص: ۶۰-۶۱ [2] ص: ۱۱۲