کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 493
ہے، نہ کہ وہ اس کی توحید بیان کرنے والے ہیں ، جیسا کہ ان کے تینوں اشعار سے معلوم ہو رہا ہے کہ ’’اللہ عز و جل کی توحید اس کے سوا کسی نے بیان ہی نہیں کی ہے اور ہر وہ شخص، جس نے اللہ کی توحید بیان کی ہے تو وہ اس کی توحید کی حقیقت کا منکر ہے تو اس قول میں حق بھی ہے اور الحاد بھی جس کی تفصیل یہ ہے: اگر اس قول: ’’رب تعالیٰ ہی اپنے برگزیدہ بندوں کے دلوں میں اپنی توحید بیان کرنے والا ہے نہ کہ وہ اس کی توحید بیان کرنے والے ہیں ‘‘ کا ظاہری مفہوم مراد ہے یعنی اللہ خود اپنا موحد ہے نہ کہ غیر، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کے اندر حلول کر لیا ہے اسی طرح وہ اپنے اولیاء کے دلوں میں اپنی ذات کے لیے موحد بن گیا ہے اور یہ ان کے ساتھ اتحاد کر لینے اور ان کے اندر حلول کر جانے کی وجہ سے، تو یہ عین نصاریٰ کا قول ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ برا ہے، اس لیے کہ نصاریٰ صرف مسیح کے اندر اللہ کے حلول کے قائل ہیں ، جبکہ صوفیا نے اس کو ہر توحید بیان کرنے والے کے لیے عام کر دیا ہے، بلکہ وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ توحید بیان کرنے والا اور جس کی توحید بیان کی جائے یعنی مُوَحِّد اور مُوَحَّد دونوں ایک ہیں اور تعدد کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ۔ لیکن اگر مذکورہ قول سے ان کی مراد یہ ہے کہ ’’اللہ ہی نے ان کو اپنی توحید کے بیان کی توفیق دی ہے، بایں معنی کہ اسی نے ان کو یہ الہام کیا ہے کہ وہ اس کی توحید بیان کریں تو ان کو اپنی توحید کی معرفت بخش کر، اس کو ان کے دلوں میں ڈال کر اور اس کو اُن کی زبانوں پر جاری کر کے وہ خود اپنا مُوحِّد ہے تو یہ معناً صحیح ہے، لیکن اس سے بندوں کے فعل کی نفی نہیں ہوتی، یعنی یہ نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ ہی اپنی توحید بیان کرنے والا ہے نہ کہ اس کے بندے؛ یہ قول شرع، عقل اور حس تینوں اعتبار سے باطل ہے، کیونکہ اللہ کی توفیق، عون اور حکم سے اس کی توحید بیان کرنے والوں پر ’’مُوحِد‘‘ ہونے کا اطلاق صحیح ہے۔ ایک ضروری وضاحت: حافظ ابن القیم نے ہروی کی صوفیانہ اور ملحدانہ عبارتوں کو قابل قبول بنانے کے لیے ان کی جو دور از کار توجیہات کی ہیں وہ ان کی طہارت قلبی پر دلالت کرتی ہیں ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ابواسماعیل ہروی نے توحید کی اس تیسری قسم سے ’’وحدۃ الوجود‘‘ ہی مراد لیا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: ((و إلی ہذا التوحید شخص أہل الریاضۃ و ارباب الأحوال و إیاہ عنی المتکلمون فی عین الجمع)) ’’اسی توحید کی جانب اہل ریاضت اور ’’حال‘‘ والوں نے شوق بھری نظروں سے دیکھا ہے اور ’’جمع‘‘ کی حقیقت کے بارے میں کلام کرنے والوں نے یہی توحید مراد لی ہے۔‘‘ یہ عبارت اور اس کا آخری فقرہ اس امر پر بصراحت دلالت کرتا ہے کہ یہ وحدۃ الوجود کے قائلین کی توحید ہے،