کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 490
پیدا کرنے اور بنانے والے مُسَبِّب سے غافل ہو جائے اور اس سے اعراض برتنے لگے اور اس کی نگاہ اور توجہ اسباب ہی پر مرکوز ہو کر رہ جائے، تو یہ شرک ہے۔ ۲۔ لیکن اگر وہ اسباب کی جانب اس خیال اور عقیدہ سے متوجہ ہو اور ان کو عمل میں لائے کہ اسباب پر عمل کا حکم دیا گیا ہے اور اسباب کو اختیار کر کے وہ حق بندگی ادا کر رہا ہے اور ان کو وہی درجہ دے رہا ہے جو اصلاً ان کو حاصل ہے اور جو اللہ نے انہیں دیا ہے اور اسباب پر عمل کرتے ہوئے وہ ’’مسبب الاسباب‘‘ سے غافل نہ ہو، تو یہی اللہ کی بندگی اور توحید ہے۔[1] ۳۔ تیسری توحید: ابواسماعیل ہروی نے توحید کی تیسری قسم کو ’’اخص الخواص‘‘ کی توحید قرار دیا ہے، اور اس کی تعریف میں بھی انہوں نے وہی صوفیانہ الفاظ اور تعبیرات استعمال کی ہیں جو توحید کی پہلی اور دوسری قسم، نیز تصوف کے دوسرے رموز اور مقامات کے بیان میں استعمال کی ہیں ، میں پہلے ان کی عبارت کا واضح اور قابل فہم ترجمہ کر دیتا ہوں ، پھر حافظ ابن القیم کا اس پر وہ تبصرہ نقل کروں گا جو انہوں نے ’’مدارج السالکین فی شرح منازل السائرین‘‘ میں کیا ہے۔ ہروی فرماتے ہیں : ’’رہی تیسری توحید تو وہ ایسی توحید ہے جس کو ’’حق‘‘ نے اپنی ذات کے لیے خاص کر لیا ہے، اور جس کا وہ اپنے مقام و مرتبے کے اعتبار سے مستحق ہے اور جس کی ایک جھلک ہی اس نے اپنے منتخب بندوں میں سے کچھ بندوں کے باطن کو دکھائی ہے اور ان کو اس کا وصف بیان کرنے سے گونگا اور اس کو پھیلانے سے عاجز بنا دیا ہے۔‘‘ ’’یہ وہ توحید ہے جس کی جانب اشارہ کرنے والوں کی زبانوں سے یہ اشارہ کیا جاتا ہے کہ یہ حادث ہونے کو ساقط اور غیر معتبر قرار دینے اور قدیم ہونے کو ثابت کرنے سے عبارت ہے، لیکن اس توحید کے حق میں یہ ’’رمز‘‘ ایک ایسی علت ہے جس کو غیر معتبر قرار دیے بغیر یہ توحید صحیح نہیں ہے۔‘‘ ’’… یہ وہ توحید ہے جس کا بیان اس کو مزید چھپا دیتا ہے، اس کا وصف اس سے متنفر کر دیتا ہے اور اس کی تفصیل اس کو مزید مشکل اور دشوار بنا دیتی ہے۔‘‘ ’’اسی توحید کی طرف اہل ریاضت اور حال والے شوق سے دیکھتے ہیں ، یہی اہل تعظیم کا مقصود ہے اور اسی کو ’’جمع‘‘ کی حقیقت بیان کرنے والے مراد لیتے ہیں ۔‘‘ ’’… میں نے قدیم زمانے میں صوفیا کی توحید کے بارے میں ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے تین اشعار
[1] ص ۳۸۹-۳۹۰، ج ۳