کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 49
آچکی ہے کہ قرآن وحدیث میں دین کو عقائد اور غیر عقائد میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ کر کے کہ ’’یقین کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ وحی اور اس وحی کا تواتر ہے‘‘ اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے، اور وہی راگ الاپا ہے جو معتزلہ، متکلمین اور ان کے ہم نوا فقہاء الاپ رہے ہیں کہ ’’احادیث آحاد‘‘ یقینی ذریعہ علم نہیں ہیں ، ہم ان سے کہتے ہیں کہ: ﴿نَبِّؤنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (الانعام: ۱۴۳) ’’اگر تم سچے ہو تو علم کے ساتھ مجھے خبر دو۔‘‘ حدیث واحد کی ظنیت کا دعویٰ: اس کتاب میں ’’ظن‘‘ کا مفہوم بڑی تفصیل سے واضح کر چکا ہوں ، چونکہ حدیث واحد کے بارے میں یہ دعویٰ معتزلہ کے دور ہی سے دہرایا جا رہا ہے کہ حدیث واحد ظنی ہے۔ اس لیے معتزلہ اور متکلمین اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والوں کی حد تک یہ دعویٰ صحیح ہے، کیونکہ ان کو حدیث واحد سے ظن کے سوا کچھ اور حاصل ہی نہیں ہو سکتا، معتزلہ اور متکلمین تو توحید اور اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے باب میں قرآن اور احادیث متواتر کو بھی، اگر عالم واقعہ میں ان احادیث کا کوئی وجود ہے قطعی الدلالۃ نہیں مانتے، جبکہ یہ دونوں ان کے نزدیک قطعی الثبوت ہیں ، پھر وہ احادیث آحاد کو یقینی ذریعہ علم کیوں ماننے لگے، مگر رونا تو ان نئے محققین اور مجد دین کا ہے، جن کے تیور تو یہ ہیں کہ ان سے بڑا حق پسند اور اسلام کا حامی کوئی نہیں ، لیکن ہیں انہی معتزلہ اور متکلمین کے نرے مقلد اور انہی کی لکیر کے فقیر۔ ان محققین کی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ پہلے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حدیث واحد ظنی ہے، پھر قرآن پاک کی ان آیتوں سے استدلال کرتے ہیں جن میں یہ آیا ہے کہ ’’ظن‘‘ حق کو دفع نہیں کر سکتا، ہٹا نہیں سکتا، دور نہیں کر سکتا وغیرہ اس سلسلے میں محمود ابوریہ نے جس کے افکار کی صدائے باز گشت سلیمان ندوی اور امین اصلاحی کے بیان میں سنائی دے رہی ہے، سورۂ یونس کی آیت نمبر ۳۶، اور سورۂ نجم کی آیت نمبر ۲۸ سے استدلال کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب: اضواء علی السنۃ المحمدیۃ میں لکھتا ہے: ’’جمہور کا قول ہے کہ اخبار آحاد سے علم نہیں حاصل ہوتا، اگرچہ یہ بخاری اور مسلم ہی میں مروی ہوں ، اور امت کے ان کو قبول کرنے کی وجہ سے ان اخبار پر عمل کرنے کا جواز نکلتا ہے کیونکہ امت کو یہ حکم ہے کہ وہ ہر اس خبر پر عمل کرے جس کے سچ ہونے کا گمان غالب ہو۔‘‘ [1] اصلاحی بھی حدیث واحد کو ظنی کہتے ہوئے نہیں تھکتے، بلکہ جو لوگ بھی حدیث واحد کے شرعی حجت ہونے کے منکر ہیں وہ سب یہی نعرہ لگاتے ہیں ، جبکہ عقل ومنطق کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ پہلے یہ ثابت کرتے کہ حدیث واحد ظنی ہے، پھر
[1] ص ۲۴۰، بحوالہ الانوار اس کا شفہ ص ۳۳۵۔