کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 488
نہیں ہوتا، توڑنے سے کوئی چیز نہیں ٹوٹتی، اور ذبح کرنے سے روح نہیں نکلتی، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی طاعت جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات پانے کا سبب ہے اور نہ شرک، کفر اور معصیت جہنم میں داخل ہونے کا سبب؛ جنت میں داخل ہونے والے کسی سبب اور حکمت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مجرد مشیت سے داخل ہوں گے، اسی وجہ سے منازل السائرین کے مصنف نے کہا ہے: ’’موحد، نہ توحید کے مسئلہ میں کوئی دلیل دیکھے، نہ توکل کے مسئلہ میں کسی سبب کا اعتبار کرے اور نہ نجات کے سلسلے میں کوئی ذریعہ اپنائے۔‘‘ کیونکہ یہ عقیدہ رکھنے والوں کے نزدیک کائنات کی تمام اشیاء اور اوامر ونواہی محض مشیت الٰہی سے وقوع پذیر ہوتی اور صادر ہوتی ہیں ان کے پیچھے کوئی سبب، مقصد، غایت اور حکمت نہیں ہوتی، اسی کا اعتقاد ان کے نزدیک توحید کی انتہاء اور معرفت کی غایت ہے۔ مذکورہ نظریہ کو مسلک اور عقیدہ بنا لینا دنیا اور دین دونوں کو برباد کر دینے والا ہے۔ بلکہ یہ سارے رسولوں کے ادیان و شرائع کے خلاف ہے۔ ’’جن لوگوں نے ترک اسباب کو اپنا ضابطہ بنا رکھا ہے اور جو ان کا عقیدہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سعادت و بدبختی کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور وہ اس کا فیصلہ کر چکا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، لہٰذا ہمارا عمل اور ترکِ عمل دونوں برابر ہیں ؛ اگر اللہ کے علم ازلی میں ہم بدبخت ہیں اور ہماری بدبختی کا فیصلہ ہو چکا ہے تو ہم بدبخت ہی رہیں گے، عمل کریں یا عمل نہ کریں ، اور اگر اللہ کے علم ازلی میں ہماری سعادت اور نیک بختی ثبت ہے تو ہم نیک بخت ہی رہیں گے چاہے عمل کریں یا نہ کریں ۔‘‘ اس عقیدہ واصل کو ضابطۂ حیات بنانے والوں نے ’’دعا‘‘ سے بھی کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ جس چیز کے لیے دعا کی جاتی ہے اگر اس کے حصول کا علم اور فیصلہ ہو چکا ہے وہ حاصل ہو کر رہے گی ہم دعا کریں یا نہ کریں اور اگر اس کا عدم حصول اللہ کے علم میں ثبت ہے تو وہ حاصل نہیں ہو گی اگرچہ ہم اس کی دعا کریں ۔‘‘ ہمارے شیخ -ابن تیمیہ- کا قول ہے کہ ’’یہ اصل اور قاعدہ فاسد ہے اور کتاب و سنت اور اسلاف اور ائمہ دین کے اجماع کے خلاف ہے، بلکہ عقل، حس اور مشاہدہ کے بھی خلاف ہے۔‘‘[1] قرآن میں اسباب و ذرائع کا اثبات: قرآن میں بکثرت ایسی آیات آئی ہیں جو بصراحت اسباب و ذرائع کو ثابت کرتی ہیں اور مختلف طریقوں سے کونی اور شرعی احکام اور ثواب و عقاب کو اسباب کا نتیجہ قرار دیتی ہیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سبب اور حکمت اور علت بیان
[1] مدارج السالکین: ۳/۳۸۷-۳۸۹