کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 487
تفصیل بیان کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ: ’’تُو توحید کے مسئلہ میں کوئی دلیل نہ دیکھے، توکل کے معاملے میں کسی سبب پر عمل نہ کرے اور نجات کے لیے کوئی ذریعہ نہ اپنائے۔‘‘ تو اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ساری باتیں قابل گرفت، بلکہ مردود ہیں ، حافظ ابن القیم اس پوری عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ ظاہری اسباب سے ان کی مراد حرکات اور اعمال ہوں اور ان کو ساقط اور غیر معتبر قرار دے دینے سے ان کی مراد یہ ہو کہ ان کو سعادت اور نجات کا موجب نہ مانا جائے، البتہ ان کو نظر انداز اور بے اثر نہ قرار دیا جائے، کیونکہ اسباب کو سعادت و نجات کا موجب قرار دینا کفر اور اسلام کے دائرہ سے مکمل طور پر نکل جانا ہے؛ بلکہ ان اسباب پر اس اعتبار سے عمل کرے کہ ان کو کامیابی اور نجات کا موجب نہ سمجھے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((إعملوا، و اعلموا أن أحدًا منکم لن ینجیہ عَملُہ)) [1] ’’عمل کرو، اور یہ بھی تمہارے علم میں رہے کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دے سکتا۔‘‘ ان کی جو بھی مراد ہو، وہ اپنی اس عبارت میں راست گو نہیں ہیں ؛ اس لیے کہ ظاہری اسباب کو ساقط کر دینے کا مطلب اگر یہ ہے کہ ان کو بے کار اور نظر انداز کر دیا جائے تو اس سے بڑا ’’باطل‘‘ کوئی نہیں اور اگر انہوں نے یہ کہنا چاہا ہے کہ ظاہری اسباب کو کامیابی اور نجات کا موجب اور مقتضی نہ مانو اور حقیقی موجب اللہ کی مشیت کو سمجھو، تو ایسی صورت میں ظاہری اسباب اور باطنی اسباب میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر ظاہری اسباب سے ان کی مراد وہ اسباب ہیں جن کو اختیار کرنے اور عمل میں لانے کا بندوں کو حکم نہیں دیا گیا ہے تو نہ ان کو غیر معتبر قرار دینا توحید ہے اور نہ ان پر عمل کرنا توحید کے منافی ہے۔ خلاصۂ کلام: یہ کہ اسباب کو ساقط اور ناقابل عمل قرار دینا توحید نہیں ہے بلکہ ان کو عمل میں لانا، ان کا اعتبار کرنا اور ان کو وہ درجہ دینا جو اللہ نے ان کو دیا ہے، ہی خالص توحید اور اللہ کی بندگی ہے اور اسباب کو ساقط اور غیر معتبر قرار دینے کا نظریہ اس فرقہ کی توحید ہے جس کو ’’جبریہ قدریہ‘‘ کہتے ہیں ، یہ فرقہ انسان کے مجبور محض ہونے کے عقیدے میں جہم بن صفوان کا پیرو ہے۔ اس فرقہ کے نزدیک اللہ نے کوئی بھی چیز کسی سبب سے پیدا نہیں کی ہے اور نہ اسباب میں کوئی طاقت اور خاصیت ہی ودیعت کی ہے؛ نہ آگ میں جلانے کی خاصیت ہے اور نہ زہر میں ہلاک کرنے کی تاثیر ہے، نہ پانی اور روٹی میں پیاس بجھانے اور جسم کو نشوونما دینے کی قدرت ہے اور نہ آنکھ میں دیکھنے کی طاقت، اور نہ کان اور ناک میں سننے اور سونگھنے کی صلاحیت، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کے یہ اثرات جسم سے ان کے ملنے کے وقت پیدا کر دیتا ہے، خود ان سے یہ اثرات پیدا نہیں ہوتے، مثلاً: کھانے سے آسودگی اور شکم سیری نہیں ہوتی، پینے سے پیاس نہیں بجھتی، دلائل سے علم حاصل
[1] بخاری: ۳۹، ۵۶۷۳، مسلم: ۲۸۱۶