کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 486
انبیاء کے علاوہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی سے سرفراز فرمایا ہے وہ موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی والدہ ماجدہ ہیں ، بلاشبہ ان کو کی جانے والی وحی ’’وحی الٰہی‘‘ ہی تھی، الہام نہیں تھا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وحی کے ذریعہ جن حقائق کی ان کو خبر دی تھی، الہام اُن کا ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ الہام غیر واضح اور مبہم خیال کا نام ہے جس سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، جبکہ ام موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو جو حکم دیا گیا تھا وہ بالکل ایک انوکھا حکم تھا، یعنی وہ اپنے نوزائیدہ بچہ کو دریا میں ڈال دیں اور اس پر کوئی رنج و غم نہ کریں ، وہ اس کو ان کے پاس واپس بھی لائے گا اور اس کو رسول بھی بھی بنائے گا۔ (القصص: ۷) اس حکم ربانی کی تعمیل کے لیے جو یقین و اذعان درکار تھا وہ صرف وحی ہی کے ذریعہ ممکن تھا ورنہ ایک ماں اپنے ہاتھوں اپنے لخت جگر کو دریا میں نہیں ڈال سکتی تھی۔ شہد کی مکھی کی طرف وحی کرنے کا جو ذکر آیا ہے (النحل: ۶۸) تو اس سے مراد وہ فطری ہدایت ہے جس کی بنیاد پر جانور اپنے مخصوص افعال انجام دیتے ہیں ۔ صوفیا کو جو مکاشفات ہوتے ہیں یا جن کا وہ اپنی مجلسوں اور کتابوں میں دعویٰ کرتے ہیں ، اولاً تو ان کا ماخذ و مصدر مجہول ہوتا ہے، ثانیاً: وہ یقینی بھی نہیں ہوتے، ثالثاً: صوفیا اپنے عقیدہ و عمل میں کتاب و سنت کی پیروی کے بجائے اپنے خودساختہ عقائد اور نظریات کی پیروی کرتے ہیں ، جن میں سے اکثر تو کتاب و سنت سے ماخوذ عقائد سے متعارض ہیں اور جن کی کوئی شرعی بنیاد بھی ہے ان کا بھی صوفیا کے یہاں خاص مفہوم ہے، ایسی صورت میں صوفیا کے مکاشفات پر اس آیت سے استدلال، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کی جانے والی وحی کا ذکر ہے، غیر معصوم اور اپنی آراء کو دلیل و حجت بنانے والے صوفیا کو اللہ کے معصوم نبی اور رسول سے تشبیہ دینا ہے، جو حرام بھی ہے اور صوفیا کی خود فریبی کی دلیل بھی۔ ہروی نے اس طرح تمام صوفیانہ حقائق سے پہلے قرآنی آیات کا ذکر کیا ہے جو اپنے مفہوم اور اپنے سیاق و سباق کی روشنی میں ان خود ساختہ ’’حقائق‘‘ کے بالکل برعکس ہیں ۔ توحید کی دوسری قسم کے مآخذ: ابو اسماعیل ہروی نے توحید کی اس دوسری قسم کی جو تعریف کی ہے وہ اسلامی نقطۂ نظر سے قابل گرفت ہے، لہٰذا اس کی وضاحت ضروری ہے: ۱۔ ہروی نے اس دوسری توحید کو جو ’’خواص کی توحید‘‘ کہا ہے تو خواص سے ان کی مراد صوفیا ہیں جو ارباب تصوف کے حلقوں میں ’’راہ سلوک‘‘ پر چلنے والے معروف ہیں ، سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کے عقائد اور اعمال اور اوراد و اشغال کتاب و سنت کی منصوص تعلیمات سے قدم قدم پر ٹکراتے ہیں کیا ان کو ’’خواص‘‘ کا نام دینا ’’برعکس نام دھند زنگی را کافور کے قبیل سے نہیں ہے؟ ۲۔ انہوں نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’یہ توحید ظاہری اسباب کو ساقط اور غیر معتبر قرار دے دینے کا نام ہے، پھر اس کی