کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 485
۲۔ توحید کی دوسری قسم: ’’رہی دوسری توحید جو حقائق سے ثابت ہوتی ہے، خواص کی توحید ہے، یہ توحید ظاہری اسباب کو ساقط اور ناقابل اعتبار قرار دے دینے، عقلی حجت بازیوں اور شواہد سے تعلق رکھنے سے بلند ہو جانے کا نام ہے، جس کا مطلب ہے کہ تُو توحید کے مسئلہ میں کوئی دلیل نہ دیکھے، توکل کے معاملہ میں کسی سبب پر عمل نہ کرے، اور نجات کے لیے کوئی ذریعہ اور وسیلہ نہ اپنائے۔‘‘[1] اس توحید کے بارے میں عرض ہے کہ اولاً تو یہ نہ عوام کی توحید ہے اور نہ خواص کی، کیونکہ اس کا ذکر قرآن اور حدیث میں اشارۃً بھی نہیں آیا ہے لہٰذا یہ صوفیا کی خانہ ساز ہے۔ ثانیاً اس توحید کی جو تعریف کی گئی ہے اور اس کے جو خدوخال بیان کیے گئے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ جن کی وجوہات حسب ذیل ہیں : ۱۔ ہروی کا یہ دعویٰ ہے کہ خواص کی یہ توحید حقائق سے ثابت ہوتی ہے، اوپر میں یہ بتا چکا ہوں کہ حقائق کوئی اسلامی اصطلاح نہیں ، بلکہ صوفیانہ اصطلاح ہے اور حقائق سے مراد مکاشفہ، مشاہدہ، معاینہ، حیات، قبض، بسط، سکر، صحو، اتصال اور انفصال ہیں ۔ حقائق اور غیر حقائق، کسی بھی نام سے ان کا ذکر کتاب و سنت میں نہیں آیا ہے۔ اگرچہ الفاظ سب عربی ہیں ۔ ہروی نے ان کو ’’سلوک‘‘ یا ’’سیر الی اللہ‘‘ کے مقامات کے ضمن میں درج کیا ہے جو (ص ۹۲ سے ص ۱۰۱) تک پھیلے ہوئے ہیں اور انہوں نے ہر مقام کا آغاز قرآن پاک کی کسی آیت سے کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہر مقام کا ماخذ کتاب اللہ ہے، مثال کے طور پر پہلی حقیقت ’’مکاشفہ‘‘ ہے جس کے معنی کسی کو کوئی بات بتانے اور اس پر کسی معاملے کو منکشف اور ظاہر کرنے کے آتے ہیں ۔ ہروی نے ’’مکاشفہ‘‘ کی تعریف کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا ہے: ﴿فَاَوْحٰی اِِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰیo﴾ (النجم: ۱۰) ’’تو اس نے اس کے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی۔‘‘ سابقہ آیات ۸-۹ کی روشنی میں ’’اوحی‘‘ کا فاعل اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے اور جبریل بھی؛ قرآن پاک میں وحی کی نسبت اللہ کی طرف بھی کی گئی ہے کہ حقیقی ’’موحی‘‘ وہی ہے اور جبریل کی طرف بھی کہ وحی پہنچانے کے ذمہ دار وہی تھے، لہٰذا اگر ’’أوحی‘‘ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے، تو مطلب ہو گا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ اپنے بندے اور سول کو وحی کی اور اگر مراد جبریل ہیں تو مطلب ہے کہ انہوں نے اللہ کے بندے اور رسول کو وحی کی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے تھے، جبریل کے بندے نہیں ؛ جبریل تو خود اللہ کے بندے ہیں ۔ ’’مکاشفہ‘‘ کی صحت پر سورۂ نجم کی آیت سے ہروی کا استدلال بے محل ہے؛ یہ درست ہے کہ وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بعض مخفی حقائق سے آگاہ فرماتا رہا ہے، مگر اس کے یہ بندے اس کے نبی اور رسول ہوتے تھے جن کے دل شیطانی خیالات اور وسوسوں سے پاک ہوتے تھے، اسی وجہ سے نیند کی حالت میں بھی ان کے دل بیدار رہتے تھے۔[2]
[1] ص: ۱۱۱ [2] بخاری: ۳۵۶۹-۳۵۷۰، مسلم: ۱۷۳۳