کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 484
یہ توحید بذریعہ سمع واجب التسلیم ہو جاتی ہے اور حق تعالیٰ کی عطا کردہ بصیرت سے وجود پاتی ہے اور دلائل و شواہد کے مشاہدے سے اس کو فروغ ملتا ہے۔‘‘[1] ہروی کی لغزش: ابو اسماعیل ہروی نے مذکورہ بالا عبارت میں جس ’’توحید‘‘ کی تعریف کی ہے وہ صوفیانہ طرز بیان کے باوجود درست اور قابل قبول ہے۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’یہ عوام کی توحید ہے‘‘ ایسی سنگین ٹھوکر کھائی ہے اور ایسی بھیانک غلطی اور لغزش کا ارتکاب کیا ہے جس نے مذکورہ حسین تعبیر کی ساری خوبیوں کو کالعدم کر دیا ہے، کیونکہ اولاً تو انہوں نے جو توحید بیان کی ہے وہ عوام کی توحید نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اشرف ترین بندوں ، انبیاء اور رسولوں کی توحید ہے اور اسی توحید کی دعوت دینے کے لیے ان کو مبعوث کیا گیا تھا: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo﴾ (الانبیاء: ۲۵) ’’اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اس کو یہی وحی کرتے رہے کہ درحقیقت میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿قُلْ اِِنِّی اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَہٗ الدِّیْنَo وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَo﴾ (الزمر: ۱۱-۱۲) ’’کہہ دو، درحقیقت مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت، عبادت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے کروں اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اطاعت گزاروں میں پہلا بنوں ۔‘‘ ثانیاً عقیدہ و ایمان اور فرائض و واجبات کے اعتبار سے اللہ کے بندوں کو عام اور خاص میں تقسیم کرنا غیر اسلامی ہے؛ قرآن و حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، بعد میں ان شاء اللہ یہ بتاؤں گا کہ توحید کے حوالہ سے اس تقسیم کے مآخذ مشرکانہ مذاہب ہیں ۔ مذکورہ بالا وضاحت سے یہ معلوم ہوا کہ شیخ ہروی نے توحید کی جس قسم کو پہلی توحید قرار دیا ہے اور پھر اسے عوام کی توحید بتایا ہے تو یہ دونوں باتیں قرآن و حدیث کی صراحتوں اور اسلامی روح کے خلاف ہیں ؛ قرآن و حدیث کے مطابق توحید الوہیت صرف ایک ہے اور یہی اللہ کے سارے مومن بندوں کی توحید ہے۔
[1] ص: ۱۱۱