کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 483
۱۔ توحید کی پہلی قسم عوام کی توحید ہے جو بذریعہ شواہد صحیح ہے۔ ۲۔ توحید کی دوسری قسم خواص کی توحید ہے جو حقائق کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ ۳۔ توحید کی تیسری قسم وہ ہے جو قدیم زمانے سے قائم ہے اور یہ اخص الخواص کی توحید ہے۔ ’’شواہد‘‘ سے ہروی کی مراد رسالت اور خالق کائنات کی صناعیاں ہیں ۔ اور ’’حقائق‘‘ صوفیا کی خاص اصطلاح ہے اور اس سے مراد: مکاشفہ، مشاہدہ، معاینہ، حیات، قبض، بسط، سکر، صحو، اتصال اور انفصال ہے اور ان میں سے ہر حقیقت کا صوفیا کے نزدیک ایک خاص مفہوم ہے۔ شیخ ہروی کی بیان کردہ ان تینوں قسموں کی، ان کے الفاظ میں تفصیلات بیان کرنے اور اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ اللہ کے بندوں سے جو توحید مطلوب ہے وہ صرف ایک ہے، کیونکہ فرائض و واجبات کے مکلف ہونے کے اعتبار سے تمام انسان ایک ہی درجہ پر ہیں اور ان کے درمیان جو درجات ہیں وہ فرائض و واجبات کی تنفیذ اور تعمیل کے نتائج کے اعتبار سے نہ کہ مکلف بنائے جانے کے لحاظ سے، دوسرے لفظوں میں جو توحید ایک نبی اور رسول سے مطلوب ہے وہی توحید اس کے پیرو ایک ’’چرواہے‘‘ اور ایک دیہاتی سے بھی مطلوب ہے، اسی طرح جو چیز ایک نبی اور رسول کے حق میں شرک ہے وہی معاشرتی اور اجتماعی حیثیت سے ایک ’’پست‘‘ انسان کے لیے بھی شرک ہے، لہٰذا انسانوں کو ایمان و عمل کے اعتبار سے عوام، خواص اور اخص الخواص کے خانوں میں بانٹنا غیر اسلامی اور غیر قرآنی ہے۔ ۱۔ پہلی قسم (توحید الوہیت یا عوام کی توحید): ابو اسماعیل ہروی توحید کی پہلی قسم بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’پہلی توحید یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ہے وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ سب سے بے نیاز اور سب اس کے محتاج ہیں ، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا ہے اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔‘‘ یہی وہ ظاہر اور روشن توحید ہے جس نے شرک اعظم کی نفی کر دی ہے، اسی توحید پر قبلہ کی بنیاد ہے، اسی سے جان و مال کو تحفظ حاصل ہے، اسی توحید کی وجہ سے دار الاسلام کو دار الکفر سے علیحدگی ملی ہے اور اسی کے ذریعہ عوام کے لیے ’’ملت‘‘ صحیح قرار پائی ہے۔ اگرچہ وہ اس پر دلائل پیش کرنے کا حق نہ ادا کر سکیں ، البتہ انہوں نے اس کو شک و شبہ اور حیرانی اور تذبذب سے پاک ہو کر ایسی سچی گواہی سے قبول کیا ہے جس کو دل نے قبول کر کے صحیح قرار دیا ہے۔‘‘ [1] ’’یہ عوام کی توحید ہے جو بذریعہ شواہد درست ہے اور شواہد سے مراد رسالت اور خالق کی صناعیاں ہیں ۔‘‘
[1] منازل السائرین، ص: ۱۱۰-۱۱