کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 481
پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ، سو جو کوئی میرے طریقے سے اعراض کرے وہ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔‘‘ غور فرمائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات عبادت کرنے اور نمازیں پڑھنے، اور ہمیشہ روزہ رکھنے اور بلا روزہ نہ رہنے اور شادی نہ کرنے کو اپنی سنت سے اعراض قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے سے اپنی لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ کیا پوری فضائل اعمال اور تصوف کی دوسری کتابیں اس حدیث نبوی کی مخالفت پر ورغلانے سے عبارت نہیں ہیں اور کیا فضائل اعمال میں محمد زکریا صاحب نے اپنے اکابر صوفیا کی عبادتوں کا ذکر کر کے ان کی پیروی کی جو دعوت دی ہے اور جو ترغیب دی وہ اس حدیث کے خلاف ’’چیلنج‘‘ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ حدیث پاک حقیقی دین داروں اور دین داری کا ڈھونگ رچانے والوں کے درمیان حد فاصل ہے اور صوفیا کی جمات اسلام سے نسبت کا دعویٰ کرنے والی ایسی ’’جری‘‘ جماعت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی ہی کو حقیقی دین داری تصور کرتی ہے اور اس کی دعوت دیتی ہے اس تناظر میں تبلیغی جماعت ایک غیر اسلامی جماعت ہے جس نے اسلامی لباس زیب تن کر رکھا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ صوفیا موحد نہیں ہیں ، بلکہ صوفیا توحید سے واقف ہی نہیں ہیں اور صوفی ادبیات میں توحید کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے، جبکہ اسلام اصلاً توحید ہی سے عبارت ہے، کیونکہ اس کے سارے احکام اسی توحید کے گرد گھومتے ہیں ۔ مولانا زکریا نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں کلمہ توحید، ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ کے بکثرت ورد کے فضائل میں جھوٹی روایتوں کا ذکر تو بہت کیا ہے اور اس کلمہ کے ہزاروں کی تعداد میں مشائخ صوفیا کے حوالہ سے ورد کی تلقین تو بہت کی ہے اور اس کے نتائج کے جھوٹے واقعات بیان کر کے یقین تو بہت دلایا ہے، مگر کہیں بھول کر بھی اس کلمہ کا مطلب اور اس کے تقاضوں کو بیان نہیں کیا ہے، جس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ توحید کے مفہوم سے واقف ہی نہیں تھے۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ لاکھوں افراد دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور لوگوں سے یہ کلمہ پڑھواتے پھرتے ہیں ، مگر ان مبلغین اور داعیوں میں سے کوئی ایک فرد بھی حتیٰ کہ اُن کے ’’حضرت جی‘‘ بھی یہ نہیں جانتے کہ لا الہ الا اللّٰہ کا مطلب کیا ہے اور اس کا اپنے کہنے والے سے تقاضا کیا ہے، دوسرے لفظوں میں ان میں سے کسی کو بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ توحید کیا ہے؟ فضائل اعمال میں من گھڑت اولیاء اللہ یا اکابر صوفیا کی غیب دانیوں کے جو جھوٹے واقعات بیان کیے گئے ہیں ، امور کائنات میں ان کے تصرفات کے جو دعوے کیے گئے ہیں ، ان کی عدم موت اور عدم فنا کے جو فرضی قصے بیان کیے ہیں اور مشائخ صوفیا کے حوالوں سے جو یہ دعوے کیے گئے ہیں کہ یہ بزرگان اپنی قبروں سے نکل نکل کر ان لوگوں کی مرادیں پوری کرتے ہیں جو مستغیث بن کر ان قبروں کی زیارت کرتے ہیں تو یہ ساری باتیں میرے اس دعوے کی تائید کرتی ہیں