کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 48
دراصل دین کو عقیدہ وعمل یا اصول وفروع میں تقسیم کرنے والے متکلمین ہیں ، شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف میں اہل رائے کی افراط وتفریط پر روشنی ڈالنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں کہ: ’’پھر شیطان نے چپکے سے ان فقہاء کے دلوں میں ایک لطیف حیلہ ڈال دیا اور ان کو ایک کاری فریب میں لاپھنسایا، یعنی ان کو بتایا کہ یہ جو تمہارے پاس علم کا سرمایہ ہے وہ بہت معمولی اور حقیر ہے، جس سے تمہاری ضرورت پوری نہیں ہو سکتی اور نہ یہ تمہارے لیے کافی ہو سکتا ہے، اس لیے علم کلام سے اس کو تقویت دو اور اِدھر اُدھر کے کچھ کلامی مباحث کا اس میں پیوند لگاؤ اور متکلمین کے اصولوں کو اس کا پشت پناہ بناؤ، تاکہ تمہارے لیے غور وخوض کی راہ کھلے اور فکر ونظر کا میدان وسیع ہو، پس ان کے حق میں ابلیس نے اپنا خیال سچ پایا اور مسلمانوں کے ایک مختصر گروہ کے علاوہ سب نے اس کی اطاعت اور پیروی اختیار کر لی، تعجب ہے لوگوں پر اور ان کی عقلوں پر ان کو کہاں لے جایا جا رہا ہے اور کس طرح شیطان ان کو دھوکا دے کر ان کو ان کے اصل مقصد اور مرکز رشد وہدایت سے دور کر رہا ہے، اللہ ہی ایسا ہے جس سے استعانت کی جائے۔‘‘ [1] علامہ ندوی کا دعویٰ اہل کلام کے دعویٰ کی صدائے باز گشت ہے: عقائد کے باب میں حدیث واحد کے نا قابل استدلال ہونے کا جو دعویٰ مولانا سلیمان ندوی نے کیا ہے وہ من وعن اہل کلام کے دعویٰ کی صدائے باز گشت ہے اور انہوں نے جو یہ فرمایا ہے کہ: اسلام کے ایک چھوٹے سے فرقہ غالی ظاہریہ کے سوا کوئی اس کا قائل نہیں کہ عقائد کا ثبوت قرآن کے علاوہ کسی اور طور سے ہو سکتا ہے۔‘‘ حد درجہ غلط بیانی ہے، اگر وہ یہ کہتے کہ معتزلہ اور متکلمین کے علاوہ تمام اہل حق اور اہل سنت وجماعت کا یہ مسلک ہے اور قیامت تک رہے گا کہ عقائد کا ثبوت جس طرح قرآن سے ہوتا ہے اسی طرح احادیث سے بھی ہوتا ہے، احادیث سے میری مراد ’’احادیث آحاد‘‘ ہیں ۔ تو ان کا دعویٰ سو فیصد درست ہوتا، اس لیے کہ اللہ ورسول نے عقائد اور غیر عقائد میں دلیل وحجت ہونے کے اعتبار سے قرآن وحدیث میں کوئی تفریق نہیں کی ہے، رہی احادیث آحاد اور احادیث متواتر کی اصطلاح تو یہ بھی ان لوگوں کی گھڑی ہوئی ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں حدیث کی تشریعی حیثیت کے منکر ہیں ۔ ندوی صاحب نے آگے جو یہ فرمایا ہے کہ: عقیدہ نام ہے یقین کا اور یقین کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ وحی اور اس وحی کا تواتر ہے، تو یہ بھی حقیقت سے بہت دور اور محض ان کی ’’بڑ‘‘ ہے، جو مصنف سیرت ہونے کی ان کی شہرت کے شایان شان بھی نہیں ہے۔ موصوف کے اس ارشاد سے یہ لازم آتا ہے کہ اسلام میں عقائد کے علاوہ کوئی اور چیز یقینی نہیں ہے۔ یہ تمام عبادات، احکام، محاسن اخلاق اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے متعلق کوئی بھی چیز یقینی نہیں ہے، اوپر یہ بات
[1] ص ۸۴۔۸۵