کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 479
اللہ کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘ علامہ قرطبی نے ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں ان اقوال کو نقل کیا ہے؛ علی رضی اللہ عنہ کے قول کے بارے میں تو لکھا ہے کہ ان سے اس کی نسبت صحیح نہیں ہے، ویسے بھی مناسک حج ادا کر لینے کے بعد ایک مومن صادق کا اللہ تعالیٰ سے صالح بیوی کے لیے دعا کرنا آیت کے سیاق و سباق سے بے جوڑ ہے، دوسرے اقوال کو بھی قرطبی نے ردّ کر دیا ہے اور لکھا ہے کہ علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ’’حسنتین‘‘ سے مراد دنیا اور آخرت کی نعمتیں اور بھلائیاں ہیں اور یہی صحیح ہے، کیونکہ لفظ ان کے عموم کا مقتضی ہے، چونکہ ’’حسنۃ‘‘ نکرہ ہے اور دعا کے ضمن میں آیا ہے، اس لیے بدل کے طور پر تمام بھلائیوں پر مشتمل ہے۔[1] تیسرا تبصرہ یہ ہے کہ حسن بصری کے حوالہ سے جو یہ فرمایا ہے کہ اس سے مراد علم اور عبادت ہے اور جعفر کے نزدیک ’’اللہ پاک کے کلام کا سمجھنا، دشمنوں پر فتح اور صالحین کی صحبت مراد ہے۔‘‘ تو عرض ہے کہ ان چیزوں پر دنیا کی بھلائیوں کا اطلاق نہیں ہوتا، رہی صالحین کی صحبت تو جعفر صادق کے زمانے میں یہ اصطلاح کہاں متعارف تھی؟ مولانا زکریا کے مغالطے: فضائل اعمال کے مصنف نے سورۂ بقرہ کی آیت مبارکہ سے رہبانیت کے غیر اسلامی طرز حیات ہونے پر استدلال پر اپنی تنقید کو درست ثابت کرنے کے لیے مغالطے پر مغالطے دیے ہیں اور قرآن پاک سے ایسی آیتوں کی مثالیں دے کر قارئین کو فریب دینے کی کوشش کی ہے جن میں دنیا طلبی یا دنیا پرستی کی مذمت کی گئی ہے، جبکہ زیر بحث آیت مبارکہ کا دنیا طلبی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ آیت تو طالب دنیا کی دعا کے بعد آئی ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کے طالب کی مدح فرمائی ہے اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا طالب دنیا پرست یا دنیا کا طالب ہرگز نہیں ہے۔ اسلام میں دین داری کا معیار: اسلام میں جس دین داری کی تعلیم دی گئی ہے وہ ’’فضائل اعمال‘‘ کی دین داری سے بہت مختلف چیز ہے؛ اسلام جس چیز کو دین داری قرار دیتا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی ہے، یعنی آپ کے اوامر کی تعمیل اور آپ کے نواہی سے اجتناب اور آپ کی سیرت پاک کو نمونۂ عمل بنانا۔ اس کے برعکس تصوف میں دین داری اکابر صوفیا کے نقش قدم کی پیروی ہے جس کی مثالوں سے ’’فضائل اعمال‘‘ کے صفحات سیاہ کیے گئے ہیں اور یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ صوفیا کے اعمال میں اتباع رسول یا اتباع سنت کی کوئی جھلک نہیں ہے، اگر ان کا کوئی عمل کسی حدیث پر مبنی بھی ہے تو تاویل کی خراد پر چڑھا کر اس حدیث کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے، ورنہ صوفیا کے بیشتر عقائد و اعمال خود ساختہ ہیں یا جھوٹی روایتوں پر مبنی ہیں اس دعوے کی صداقت پر فضائل اعمال کے صفحات گواہ ہیں ۔
[1] ص ۳۳۴، ج ۲