کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 478
ہے، فرماتے ہیں : ’’لیکن اول تو یہ آیتِ شریفہ کی تفسیر راسخین فی العلم سے معلوم کرنے کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے علماء کا ارشاد ہے کہ صرف لفظی ترجمہ دیکھ کر اپنے کو عالم قرآن سمجھ لینا جہالت ہے، صحابہ کرام اور علماء تابعین سے جو آیت شریفہ کی تفسیریں منقول ہیں وہ حسب ذیل ہیں : حضرت قتادہ سے مروی ہے دنیا کی بھلائی سے مراد عافیت اور بقدر کفایت روزی ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ اس سے صالح بیوی مراد ہے، حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ اس سے مراد علم اور عبادت ہے، سُدی سے منقول ہے کہ پاک مال مراد ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نیک اولاد اور خلقت کی تعریف مراد ہے، جعفر سے منقول ہے کہ صحت اور روزی کا کافی ہونا مراد ہے اور اللہ پاک کے کلام کا سمجھنا، دشمنوں پر فتح اور صالحین کی صحبت مراد ہے۔‘‘ تبصرہ: مولانا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’علماء کا ارشاد ہے کہ صرف لفظی ترجمہ دیکھ کر اپنے کو عالم قرآن سمجھ لینا جہالت ہے‘‘ تو یہ بات سب سے زیادہ صوفیا اور ان کے مریدین پر صادق آتی ہے جو تصوف کی کتابیں اور فضائل اعمال پڑھ کر لوگوں میں دین کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں ، جبکہ ان کا مبلغ علم ان کتابوں میں بیان کردہ جھوٹی روایات اور من گھڑت واقعات تک محدود ہوتا ہے۔ دوسرا تبصرہ یہ ہے کہ مولانا نے اپنی کتاب میں جھوٹی روایتیں اور خود ساختہ واقعات بیان کر کے کذب بیانی میں اپنی جو شناخت بنا لی ہے اس کی وجہ سے آیت کی تفسیر سے متعلق ان کے نقل کردہ اقوال کی ان کے قائلین سے نسبت محل نظر ہے، چنانچہ ایک حدیث کے مطابق جو شخص کذب بیانی کا عادی ہوتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے، حدیث کے الفاظ ہیں : ((إن الصدق یہدی إلی البر و ان البر یہدی إلی الجنۃ و إن الرجل لیصدُق حتی یُکتب عند اللہ صدیقًا و إن الکَذِبَ یہدی إلی الفجور و إن الفجور یہدی إلی النار و إن الرجل لیکذِبُ حتی یکتب عند اللہ کذابًا)) [1] ’’درحقیقت سچائی نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک آدمی صدق بیانی کو شعار بنا لیتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں سراپا راست گو لکھ لیا جاتا ہے اور کذب بیانی برائی کی راہ دکھاتی ہے اور برائی جہنم کے راستے پر ڈال دیتی ہے اور ایک آدمی کذب بیانی کا عادی ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ
[1] بخاری: ۶۰۹۹، مسلم: ۲۶۰۷