کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 477
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا مانگا کرتے تھے، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ((کان أکثر دعاء النبی صلي اللّٰه عليه وسلم : اَللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ)) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دعا سب سے زیادہ مانگا کرتے تھے وہ یہ تھی: اَللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ)) [1] مولانا زکریا کا رسوخ فی العلم: رسوخ فی العلم کے معنی ہیں ، علم میں گہرائی، پختگی اور مہارت اس کی ضد علمی سطحیت ہے رسوخ فی العلم سے موصوف انسان کو ’’راسخ فی العلم‘‘ کہتے ہیں یعنی علم میں پختہ، گہرائی رکھنے والا اور ماہر، جبکہ سطحیت سے موصوف انسان سطحی انسان ہے جس کے علم میں کوئی گہرائی نہ ہو، جو عبارت کے اوپر سے گزر جاتا ہو اور اس کی گہرائی میں ڈوب کر اس کے حقیقی معنی اور مفہوم کو سمجھنے اور بیان کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ حقیقی اہل علم کی پہچان یہ ہے کہ ان کے کلام اور تحریروں میں معانی کے لعل و جواہر ملتے ہیں ، ان کی باتوں میں گہرائی ملتی ہے اور وہ نصوص کی ایسی صاف اور واضح تشریح کر دیتے ہیں کہ ان کو سننے والا اور پڑھنے والا ان کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے اور ان کے معنی اس کی گرفت میں آ جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس سطح بیں کاتب یا عالم اپنی تحریروں میں قرآن و حدیث کی نصوص کی عام فہم تفسیر و تشریح کرنے کے بجائے لوگوں کے اقوال نقل کر دینے پر اکتفا کرتا ہے، چونکہ خود ان نصوص کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے نقل کردہ اقوال میں سے موقع و محل سے مناسبت رکھنے والے اقوال کا انتخاب کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا، اس طرح اس کی باتیں قاری کو حقیقت سے دور کر دیتی ہیں ۔ صوفیا کی تفسیر قرآن دراصل تحریف قرآن ہے میں اس کتاب میں تصوف سے تعلق رکھنے والے بعض علماء کے اقوال نقل کر چکا ہوں جنہوں نے صوفیا کی تفسیر کو تحریف قرآن قرار دیا ہے، ان کے سرفہرست حافظ سیوطی ہیں جو صوفی ہوتے ہوئے بھی قرآن کی باطنی تفسیر نہیں کرتے تھے، قرآن کی باطنی تفسیر صوفیا کا طرۂ امتیاز ہے۔ صوفیا کو یہ ’’غرہ‘‘ ہے کہ وہ ’’راسخین فی العلم‘‘ ہیں مولانا زکریا اپنی کتابوں میں راسخین فی العلم سے صوفیا ہی کو مراد لیتے ہیں ، برعکس نام دھند زنگی را کافور‘‘ انہوں نے غیر اسلامی، بلکہ اسلامی مزاج سے متصادم طرز حیات ’’رہبانیت‘‘ کے دفاع میں سورۂ بقرہ کی آیت ۲۰۱ کی ’’تحقیر‘‘ کے بعد ’’راسخین فی العلم‘‘ کے حوالہ سے اس کی تفسیر بیان کی
[1] بخاری: ۶۳۸۹، مسلم: ۲۶۸۸