کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 476
قِنَا عَذَابَ النَّارِo﴾ اور اس آیت شریفہ پر بہت زور دیا جاتا ہے، گویا تمام قرآن پاک میں عمل کے لیے یہی ایک آیت نازل ہوئی ہے۔‘‘[1] اس چھوٹی سی عبارت: ’’گویا تمام قرآن پاک میں عمل کے لیے یہی ایک آیت نازل ہوئی ہے۔‘‘ میں جو زہر بھرا ہوا ہے وہ اس جماعت تبلیغ سے وابسہ تمام لوگوں کی دینی ہلاکت کے لیے کافی ہے، اس لیے کہ یہ لوگ مولانا زکریا کو ’’قطب الارشاد‘‘ مانتے ہیں ، کیا قرآن کے کسی حکم اور کسی آیت کو پڑھ کر اور سن کر دین کا معمولی سا علم رکھنے والا بھی اور صلاح و تقویٰ کا کوئی معمولی درجہ رکھنے والا بھی قرآن پاک کی کسی بھی آیت کے بارے میں ایسی سنگین بات زبان سے نکال سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ موصوف نے اس زہریلی عبارت کے بعد جو ہرزہ سرائی کی ہے اس کو نقل کرنے سے پہلے میں اس آیت کے سیاق و سباق کی روشنی میں اللہ کے ان صالح بندوں کی ایک تصویر پیش کر دینا چاہتا ہوں جو حج جیسی عظیم عبادت کے مناسک ادا کر لینے کے بعد اپنے رب سے یہ دعا کرتے ہیں ۔ یہ دراصل ایک دعا ہے جو ایک مومن بندہ مناسک حج ادا کر لینے کے بعد اپنے رب سے کرتا ہے جس نے اسے حج جیسی عظیم عبادت کرنے کی توفیق بخشی اللہ تعالیٰ نے دنیا پرستوں کی دعا کا ذکر کرنے کے بعد اس کا ذکر کر کے مومن اور دنیادار کا فرق واضح کر دیا ہے، دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیاں حج، بلکہ پورے اسلام کا حاصل ہیں اس طرح اس دعا میں ایک سچے مومن کی تصویر نظر آتی ہے دنیا دار نے جو دعا مانگی تھی وہ تھی: ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا﴾ ’’اے ہمارے رب! تو ہمیں دنیا میں دے دے۔‘‘ اس نے دنیا میں اپنی مطلوبات کو مبہم رکھ کر گویا یہ کہہ دیا کہ ہمیں دنیا میں ہمارا حصہ ادا کر دے۔‘‘ اسی وجہ سے فرمایا گیا کہ: ﴿وَ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاق﴾ ’’اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے، کیونکہ اس نے صرف دنیا مانگی تھی۔ مومن کی دعا میں لفظ ’’حَسَنَۃٌ‘‘ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے آیا ہے یہ لفظ ’’نکرہ‘‘ آیا ہے، تاکہ اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہو جائیں جن پر بھلائی اور خیر کا اطلاق ہوتا ہے اور آخرت کے لیے بھی یہ ’’نکرہ‘‘ ہی آیا ہے، لہٰذا اس سے صرف جنت مراد لینا اس کے مفہوم کو محدود کرنا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسے عام رکھا ہے تو اس کو عام رکھنا ہی آیت کے مزاج کے مطابق ہے اس طرح اس میں قیامت کے دن چہرے کی رونق، نیکیوں کے پلڑے کا بھاری ہونا، اعمال نامہ داہنے ہاں میں دیا جانا اور پل صراط سے برق رفتاری کے ساتھ گزر جانا وغیرہ سب داخل ہے۔ آیت کے آخری فقرہ: ﴿وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِo﴾ ’’اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا‘‘ میں دو چیزیں داخل ہیں : ۱۔ ان اعمال سے بچانا اور محفوظ رکھنا جو آگ کے عذاب کے موجب ہیں ۔ ۲۔ اور عذاب جہنم کا مستحق بنانے والے گناہوں کی بخشش۔
[1] فضائل اعمال، فضائل تبلیغ، ص: ۳۰۴