کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 475
اس کے برعکس صوفیا نے اپنے خود ساختہ فضائل اعمال، خود ساختہ اوراد و اذکار، صحابہ، تابعین، ائمہ کے مناقب اور دوسرے دینی امور کے باب میں دل کھول کر ایسی بے اصل، جھوٹی اور باطل روایتوں کی ترویج کی ہے جن سے ان کے گمراہ کن اور فاسد عقائد کی تائید ہوتی ہے، میرے اس دعوی کی تائید مولانا زکریا کی فضائل اعمال سے ہوتی ہے۔ پانچویں دلیل:… قرآن کے خلاف بدزبانی: قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا حرف حرف اور لفظ لفظ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، پورا قرآن پاک سورۂ فاتحہ سے لے کر سورۂ ناس تک اپنے حروف، الفاظ اور معانی کے ساتھ بذریعہ جبرائیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، اس میں کوئی ایک حرف بھی نہ باہر سے داخل ہوا ہے، نہ اپنے نزول کے بعد سے اب تک اس کا کوئی حرف اس میں سے ضائع ہوا ہے اور نہ قیامت تک ضائع ہو گا اور اس کی آیتیں اور سورتیں جس طرح اپنے نزول کے وقت مرتب تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاوت کرتے تھے یہ ترتیب بلا ادنیٰ تبدیلی کے دنیا کے ہر حصے میں متداول اس کے نسخوں اور حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی وجہ سے قرآن کے کسی ایک بھی جملے، اور ایک بھی آیت کے بارے میں کوئی بدزبانی یا بے ادبی، اسی طرح اس میں بیان کردہ احکام میں سے کسی حکم کی قدر و قیمت گھٹانے کی کوئی کوشش یا اس کی اہمیت کم کرنے کی غرض سے یہ کہنا کہ یہ حکم اس میں صرف ایک بار آیا ہے ایک انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے، کیونکہ یہ اس کے اللہ کا کلام ہونے پر ایمان کے منافی ہے۔ مولانا زکریا نے فضائل اعمال میں دوسرے دینی موضوعات کی طرح تلاوت قرآن اور سورتوں کے فضائل کے بیان میں جھوٹی روایتوں کا انبار لگا دیا ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب لوگوں کے عقیدہ و عمل کی اصلاح کے بجائے ان کے اضلال و افساد کا سبب بن گئی ہے، بایں ہمہ انہوں نے صوفیا کی من گھڑت رہبانیت اور ترک دنیا کے عقیدے سے متعارض ایک قرآنی آیت کا جن الفاظ میں ذکر کیا ہے وہ ان کے ان افسادی اعمال میں سرفہرست ہے اور ان کے طرز تعبیر سے صاف طور پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ موصوف اور ان کی جماعت اپنے فاسد عقائد کے خلاف قرآن پاک کی کوئی آیت بھی سننے کی روادار نہیں ہے، چنانچہ وہ سورۂ بقرہ کی آیت: ﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِo﴾ (البقرۃ: ۲۰۱) ’’اور ان میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے، اے ہمارے رب! تو ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ایک عام اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ دین محمدی علیہ السلام میں رہبانیت کی تعلیم نہیں ، اس میں دین و دنیا دونوں کو ساتھ رکھا گیا ہے، ارشاد باری عز اسمہ ہے: ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ