کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 474
متکلمین اہل سنت و جماعت نہیں ہیں : اہل سنت و جماعت اور متکلمین کے عقائد میں مناسب مقام پر بڑی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں ، لیکن چونکہ مولانا خلیل اور صوفی ادریس نے اپنے عقائد کا ماخذ علم کلام کو قرار دیا ہے، اس لیے یہاں مختصراً دوبارہ یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اہل کلام کا شمار اہل سنت و جماعت میں نہیں ہوتا، کیونکہ اہل سنت و جماعت کا اطلاق صحابہ، تابعین، ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ پر ہوتا ہے، ائمہ فقہ سے مراد متقدمین فقہائے احناف اور غیر احناف ہیں اور متکلمین ان کے عقائد نہیں رکھتے تھے، زیادہ واضح لفظوں میں متکلمین کے عقائد خالص اور بے آمیز اسلامی عقائد نہیں ہیں ، اس لیے کہ یہ عقائد کتاب و سنت سے ماخوذ نہیں ، بلکہ خالص عقلی اور فلسفیانہ ہیں ، متکلمین، صحابہ، تابعین اور محدثین کی طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کو ان کے حقیقی معنوں میں نہیں لیتے، بلکہ ان کی تاویل کرتے ہیں ، متکلمین اشاعرہ اللہ تعالیٰ کی صرف سات صفات: حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر اور کلام کے قائل ہیں اور ماتریدی متکلمین نے ان میں ایک نئی صفت ’’تکوین‘‘ کا اضافہ کر کے ان کی تعداد آٹھ کر دی ہے، رہیں بقیہ صفات تو یہ دونوں ان کے منکر ہیں ۔ رہے اہل سنت و جماعت تو وہ اس طریقے کے متبع اور پیرو ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا طریقہ تھا اور یہ طریقہ کتاب و سنت میں اس طرح کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ اس کا کوئی بھی پہلو مبہم نہیں رہا ہے۔ اسی طریقے پر تابعین، محدثین اور متقدمین فقہاء گامزن رہے ہیں اور یہی ان لوگوں کا بھی طریقہ ے جو اسلاف کو اپنے عقیدہ و عمل میں ’’نمونہ‘‘ مانتے ہیں ۔ اہل سنت و جماعت کو یہ نام سنت کی پیروی اور اس پر متفق رہنے کی وجہ سے ملا ہے اور یہ ایک مسلمہ اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عقائد، غیبیات پر ایمان اور احادیث کو دلیل و حجت ماننے میں صحابہ، تابعین اور محدثین اور ان کے مسلک پر چلنے والوں کے مابین جو مثالی اتفاق ہے وہ اتفاق اسلام سے نسبت کا دعویٰ کرنے والے کسی بھی فرقے میں نہیں ہے اور اس عدم اتفاق میں اہل کلام سب پر برتری رکھتے ہیں ۔ چوتھی دلیل:… حدیث کے قبول و ردّ میں دوہرا معیار: صوفیا روضۂ شریفہ کا غبار تو بطور سرمہ اپنی آنکھوں میں ضرور لگاتے ہیں [1] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو عرش و کرسی اور کعبہ سے افضل تو ضرور مانتے ہیں [2] لیکن احادیث کو علی الاطلاق دلیل و حجت نہیں مانتے، بلکہ ان کے قبول و ردّ میں ’’دوہرا معیار‘‘ رکھتے ہیں ؛ اگر حدیث ان کے امام کے قول کے مطابق ہے تو قابل قبول ہے اور اگر مطابق نہیں ہے تو ناقابل التفات یا قابل تاویل ہے جس کی مثالوں سے فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔
[1] نقش حیات: ۱۰۲-۱۰۳۔ [2] المہند علی المفند، ص: ۳۶-۳۷، امداد الفتاوی: ۶/۱۱۳