کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 472
کی آیت، حدیث قدسی، حدیث نبوی اور موضوع حدیث کو علیحدہ علیحدہ بتا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ متکلم کی زبان سے جب لفظ نکلتے ہیں تو ان الفاظ کے نور سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا کلام ہے اللہ پاک کے کلام کا نور علیحدہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا نور دوسرا ہے اور دوسرے کلاموں میں یہ دونوں نور نہیں ہوتے۔‘‘[1] مبالغہ، بلکہ جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے، کاش مولانا زکریا صاحب اپنی کتاب ان کو سنا کر اس میں درج جھوٹی روایتوں اور جھوٹے واقعات کے بارے میں ان کی رائے معلوم کر لیتے اور اگر ان کی وفات ہو چکی تھی تو ان کی قبر پر بیٹھ کر ان کو پوری کتاب سنا دیتے اور وہ پردۂ غیب سے ان کو یہ بتا دیتے کہ فلاں روایات اور واقعات صحیح ہیں اور فلاں جھوٹ، کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ’’عاشق یا صوفی مرتے نہیں ہیں ۔‘‘[2] اگر مولانا نے ایسا کر لیا ہوتا تو فضائل اعمال سے لاکھوں انسان گمراہ نہ ہوتے۔ تیسري دلیل:… عقیدہ و عمل کا ماخذ کتاب و سنت نہیں : صوفیا کے اہل سنت و جماعت نہ ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ یہ فقہی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں ، عقائد میں اشعری اور ماتریدی کے اور سلوک میں نقشبندیہ، چشتیہ، قادریہ اور سہروردیہ کے۔[3] مولانا خلیل احمد نے مذکورہ تینوں باتوں کی صراحت کرنے کے بعد لکھا ہے: ((فلو ادعی احد من العلماء إنا غلطنا فی حکم فإن کان من الاعتقادیات فعلیہ أن یثبت بنص من ائمۃ الکلام و إن کان من الفرعیات فیلزم أن یبنی بنیانہ علی القول الراجح من ائمۃ المذاہب)) ’’اور اگر کوئی عالم یہ دعویٰ کرے کہ ہم سے کسی حکم میں غلطی ہوئی ہے، تو اگر یہ غلطی اعتقاد کے قبیل سے ہے تو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کی صحت ائمہ کلام کی نص سے ثابت کرے اور اگر یہ غلطی فروعی مسائل سے متعلق ہے تو وہ اپنے دعویٰ کو ائمہ مذاہب کے راجح قول پر مبنی قرار قرار دیتے ہوئے ثابت کرے۔‘‘ [4] علماء دیوبند کے ایک دوسرے بڑے عالم محمد ادریس کاندھلوی ہیں جو تصوف اور تبلیغ کے امام مانے جاتے ہیں ، مولانا خلیل کی طرح دوسرے دینی علوم کے ساتھ موصوف حدیث کے بھی بہت بڑے عالم مانے جاتے ہیں ، امام العصر علامہ کشمیری نے ان کی شرح مشکوٰۃ، ’’تعلیق الصبیح‘‘ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے:
[1] فضائل اعمال، فضائل ذکر، ص: ۳۵۴ [2] فضائل صدقات، ص: ۴۷۶ [3] المہند علی المفند، ص: ۳۰-۳۱ [4] ص: ۳۲