کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 471
کی بنیاد پر صحیح ترین حدیثوں کا انکار کر دیا گیا ہے اور باطل اور جھوٹی روایتوں کو ماخذ شریعت قرار دے دیا گیا ہے جس کی مثالوں سے تصوف کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور مولانا زکریا کی کتاب فضائل اعمال اس موضوع پر ’’شاہکار‘‘ کا درجہ رکھتی ہے جس میں مذکور روایات کم از کم پچاس فیصد اور اولیاء اللہ کے فضائل و مناقب سو فیصد جھوٹ ہیں اور حدیثوں کے درجات کے بیان میں انہوں نے اولاً تو یہ بددیانتی کی ہے کہ ان کا ضعف بہت گھٹا کر بیان کیا ہے ثانیاً یہ درجات عربی میں بیان کیے ہیں ، جبکہ ’’فضائل اعمال‘‘ کے قارئین نوے فیصد عربی زبان سے نابلد ہیں اسی طرح اس میں منقول روایتوں کو حدیث رسول ہی سمجھ کر پڑھا جاتا ہے اور ان کو سچ مان کر ان کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ دروغ گو را حافظ نہ باشد: مولانا زکریا نے زیر نظر واقعہ میں پہلے تو مسجد کے کونے میں صرف ایک جوان کو بیٹھا ہوا دکھایا ہے اور بعد میں اللہ سے حدیثیں سننے والوں کو جمع کر دیا ہے: ’’اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ ہیں جو خود رزاق سے سنتے ہیں ۔‘‘ حدیث کا نور: بلاشبہ صحیح حدیث سے روشنی بھی نکلتی ہے اور اس سے خوشبو بھی پھوٹتی ہے، مگر اس روشنی کو دیکھنے اور اس خوشبو کو سونگھنے کی قدرت و صلاحیت اللہ تعالیٰ کے انہی بندوں میں ہوتی تھی، جن کو دنیا محدثین کے نام سے جانتی ہے، اللہ کے یہ صالح بندے اپنے عقیدہ و عمل میں سنت کے متبع ہونے کے ساتھ ایسے تھے کہ ان کی پوری زندگی خدمت حدیث کے لیے وقف تھی اور ان کے شب و روز ان کے اعلیٰ اور غیر معمولی صلاحیتوں ، حیرت ناک ذہانت اور نادر المثال قوتِ حافظ کے ساتھ حدیث کے درس و مطالعہ، راویان حدیث کے حالات اور روایتِ حدیث میں ان کی اہلیت و عدم اہلیت کی بحث و تحقیق میں گزرتے تھے، اگر اس طرح کے پاکباز اور صالح انسانوں میں سے کسی عظیم المرتبت امام حدیث کی نسبت سے یہ بیان کیا جائے کہ وہ حدیث کے الفاظ سن کر ہی ان سے نکلنے والی روشنی دیکھ کر اور ان سے پھوٹنے والی خوشبو سونگھ کر یہ محسوس کر لیتا تھا کہ یہ حدیث رسول ہے یا نہیں ، جس طرح ایک ماہر جوہری اصلی ہیرے اور نقلی ہیرے پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر ہی پورے یقین کے ساتھ یہ بتا دیتا ہے کہ یہ اصلی ہے اور یہ نقلی۔ لیکن ایک صوفی جس کے عقائد غیر اسلامی ہیں ، جس کے اوراد و اذکار اور ریاضتیں من گھڑت ہیں اور جو توحید ناآشنا ہے، مزید یہ کہ اس کو حدیث اور غیر حدیث کا کوئی معمولی سا بھی علم حاصل نہیں ہے، بلکہ ان پڑھ ہے۔ اس کو کوئی حدیث سن کر یہ کس طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ ضعیف ہے اور موضوع۔ اس وضاحت کے بعد درج ذیل دعویٰ پڑھیے اور سر دھنیے: ’’شیخ عبدالعزیز دباغ ابھی قریب ہی زمانہ میں ایک بزرگ گزرے ہیں جو بالکل امی تھے، مگر قرآن شریف