کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 470
ہم کلامی کا شرف بخشا ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مولانا زکریا صاحب کو یہ بدیہی بات بھی معلوم رہی ہو گی کہ حدیث قول رسول، فعل رسول اور تقریر رسول کو کہتے ہیں ، ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست حدیثیں سننے کا دعویٰ کرنے والا بہروپیا ’’ولی‘‘ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لیے کہ مذکورہ تعریف کی رو سے حدیث یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے یا کسی صحابی کا، نہ کہ اللہ تعالیٰ کا۔ مولانا زکریا نے یہ جھوٹا واقعہ ’’ابدال میں سے ایک شخص نے حضرت خضر سے دریافت کیا‘‘ فرما کر اپنی حدیث دانی کا مذاق اڑایا ہے، کیونکہ یہ انداز بیان کسی ایسے شخص کا نہیں ہو سکتا جس کا علم حدیث سے کوئی معمولی سا بھی تعلق ہو محدث ہونا تو بہت بڑی بات ہے، پھر اس واقعہ سے محدثین کی تحقیر کی گئی ہے، ان کے طریقۂ روایت کی قدر و قیمت گھٹائی گئی ہے، صوفیا کے من گھڑت اور خود ساختہ ابدال، اقطاب، اغواث وغیرہ کا وجود ثابت کیا گیا ہے، اور ان کو خضر پر فوقیت دینے کی کوشش کی گئی ہے اور صوفیا کے اس دعوے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خضر زندہ ہیں ، ولی ہیں اور صوفیا کے ولیوں سے ملتے رہتے ہیں اور اس واقعہ کا سب سے بڑا نشانہ حدیث کی تشریعی حیثیت ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ محدثین کے حلقوں میں روایت حدیث اور سماع حدیث کا جو طریقہ رائج رہا ہے وہ اولیاء اللہ کا طریقہ نہیں ہے، اولیاء اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے حدیثیں سنتے ہیں ، ان کے اور اللہ کے درمیان بندوں کا واسطہ نہیں ہوتا اس تناظر میں محدثین کے مروّجہ اصول روایت کے مطابق مروی احادیث کو ’’من گھڑت اولیاء‘‘ اپنے کشف کی بنیاد پر یا ’’علم لدنی‘‘ کی روشنی میں ردّ کر دینے کے مجاز ہیں ، میں نے اس جھوٹے واقعہ سے جو استنتاج کیا ہے اس کی تائید حافظ جلال الدین سیوطی کے بیان کردہ اس واقعہ سے ہوتی ہے جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’الحادی للفتاوی‘‘ میں کیا ہے، لکھتے ہیں : ’’بعض اولیاء کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک فقیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے جس نے ایک حدیث بیان کی تو مذکورہ فقیہ سے اس ’’ولی‘‘ نے کہا: ’’یہ حدیث باطل ہے۔‘‘ اس پر فقیہ نے ولی سے دریافت کیا کہ تم کو کہاں سے یہ معلوم ہوا؟ ولی نے جواب دیا: ’’یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے سر پر کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں : میں نے یہ حدیث بیان نہیں کی۔‘‘ پھر اس ولی نے فقیہ پر کشف کیا تو اس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔‘‘[1] یہ ولی تو کچھ متواضع تھا، اگر امام العصر علامہ کشمیری ہوتے تو یہ فرماتے کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کو تمہارے سر پر کھڑا دیکھ رہا ہوں جو فرما رہا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔‘‘ کیا یہ نزول وحی کی حدیث میں ’’صلصلۃ الجرس‘‘ کو اللہ تعالیٰ کی آواز نہیں قرار دے چکے ہیں ، جس کو اوپر تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ دراصل بذریعہ کشف حدیث کی تصحیح و تضعیف نے اس دوسرے شرعی ماخذ کی ہیبت دلوں سے نکال دی ہے اور اس
[1] ص ۱۹۷، ج ۲