کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 47
پھر کیا سیرت پاک اور اسوۂ حسنہ کا علم، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی آیات کی جو تشریح وتفسیر فرمائی ہے اس کی جان کاری محض اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے ہے یا اس کو مشعل راہ بنانے اور اس کی پیروی کرنے کے لیے؟ اگر پہلی بات ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے کا فائدہ؟ اور اگر دوسری بات ہے تو آپ کی سیرت پاک، اسوۂ حسنہ اور قرآن کی تشریح وتفسیر قرآن پر اضافہ ہی تو ہے دراصل یہ نئے مجدد دین اپنے مبلغ علم سے قطع نظر، نیم بیداری اور نیم خواب میں لکھتے اور بولتے ہیں : ’’مالہم بذالک من علم إن ہم إلا یخرصون‘‘ دین کی عقیدہ وعمل میں تقسیم: بلاشبہ دینی تعلیمات اور احکام اپنے درجہ اور اہمیت میں یکساں نہیں ہیں ، بلکہ ان میں سے بعض کو اساس اور بنیاد کا درجہ حاصل ہے تو بعض اس اساس اور بنیاد کے تابع ہیں اس بات کو عقیدہ وعمل سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی جو باتیں اساسی اور بنیادی ہیں ان کا شمار عقائد میں ہوتا ہے اور جو اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اساسی اور بنیادی نہیں ہیں ان کو اعمال کہا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود عقائد اور اصول کی کتابوں میں دین کی، عقائد واعمال یا اصول وفروع میں جو تقسیم کی گئی ہے اس کے حق میں کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں ہے، ایسی صورت میں عقائد اور اصول کی کتابوں میں عقائد واعمال، یا اصول وفروع کی تعریف میں جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ ورسول کے ارشادات پر مبنی نہیں ، بلکہ لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں اور غلط بھی۔ عقائد واعمال یا اصول وفروع میں صرف اتنی بات درست اور صحیح ہے کہ عقائد یا اصول کی درستگی اور صحت مقدم ہے اور اس پر اعمال یا فروع کی مقبولیت موقوف ہے، بایں معنی کہ اگر کسی کا عقیدہ درست نہ ہو تو اس کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن القیم رحمہ اللہ نے دین کو اصول اور فروع میں تقسیم کرنے کا انکار کیا ہے اور اس تقسیم کو عصر صحابہ کے بعد کا عمل قرار دیا ہے جو دین میں اضافہ ہے اور بدعت ہے جو لوگ اس تقسیم کے قائل ہیں وہ نماز کو دین کے فروع میں شمار کرتے ہیں ، جبکہ نماز ارکان اسلام میں سے ایک ہے، اسی طرح یہ لوگ عقائد کی ان باتوں کو فروع میں شمار کرتے ہیں جن میں اسلاف کا اختلاف منقول ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مختلف فیہ امور عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ یہ عقیدہ کے فروعی مسائل میں شامل ہیں ، مگر ہم کہتے ہیں کہ: اگر اصول سے تمہاری مراد عقیدہ ہے، پھر تو پورا دین اصول ہے، کیونکہ تمام مالی اور بدنی عبادتیں اسی وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت قرار پا سکتی ہیں ۔ جبکہ اس اعتقاد سے انجام دی جائیں کہ شریعت نے ان کا حکم دیا ہے، اس طرح یہ اعتقاد عمل سے پہلے ہے جس پر عمل کی صحت موقوف ہے، اگر تم ان کے شرع ہونے کا عقیدہ نہ رکھو تو ان کے ذریعہ تمہارا اللہ کی عبادت کرنا صحیح نہ ہوگا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اصول ہوں یا فروع ان کے بارے میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا ہے، لیکن جو چیز اسلاف کے طرز عمل کے دائرہ سے خارج ہو وہ کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے۔‘‘ [1]
[1] بحوالہ القول المفید علی کتاب التوحید ص ۴۹۲ ج ۲۔