کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 469
خضر اللہ کے مامور بندے تھے اللہ تعالیٰ نے کائنات کے مخفی امور میں سے بعض امر کی نقاب کشائی کی غرض سے ان کو جلیل القدر رسول موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ لگایا تھا اور اسلامی شریعت سے متصادم ان کے اعمال بیان کرنے سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ ’’ہم نے اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا ہے۔‘‘ تاکہ ان اعمال کی تفصیلات جاننے سے پہلے ہی یہ معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص علم سے سرفراز فرما دیا ہے جو علم شریعت نہیں ہے، کیونکہ علم شریعت رسولوں کو فرشتوں کے ذریعہ دیا جاتا ہے اور یہ علم حاصل کرنے کے لیے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام خضر کے محتاج نہیں تھے اس میں تو وہ ان سے بہت افضل تھے۔ فرمایا: ﴿قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلَامِیْ﴾ (الاعراف: ۴۴) ’’اے موسی! درحقیقت میں نے تجھے لوگوں پر اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت بخشی ہے۔‘‘ کہاں خضر علیہ السلام اور کہاں صوفیا؛ چہ نسبت خاک را بعالم پاک؟ اگر ’’علم لدنی‘‘ رسولوں میں سے اللہ کے کسی صالح بندے یا بعض بندوں کو دیا بھی جا سکتا تھا تو وہ صوفیا تو ہرگز نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ کتاب و سنت کی تعلیمات سے بہت دور ہیں ، بلکہ سب سے زیادہ دور ہیں ۔ خضر اور ولی کی ملاقات کا ایک جھوٹا واقعہ: ’’ابدال میں سے ایک شخص نے حضرت خضر سے دریافت کیا کہ کیا تم نے اپنے سے زیادہ مرتبے والا کوئی ولی بھی دیکھا ہے؟ فرمانے لگے: ہاں دیکھا ہے، میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں حاضر تھا، میں نے امام عبدالرزاق محدث کو دیکھا کہ وہ احادیث سنا رہے ہیں اور مجمع ان کے پاس احادیث سن رہا ہے اور مسجد کے ایک کونے میں ایک جوان گھٹنوں پر سر رکھے علیحدہ بیٹھا ہے۔ میں نے اس جوان سے کہا کہ تم دیکھتے نہیں کہ مجمع حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سن رہا ہے، تم ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے۔ اس جوان نے نہ تو سر اٹھایا نہ میری طرف التفات کیا اور کہنے لگا: اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ ہیں جو خود رزاق سے سنتے ہیں نہ کہ اس کے عبد سے۔ حضرت خضر نے فرمایا: اگر تمہارا کہنا حق ہے تو بتاؤ کہ میں کون ہوں ؟ اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہنے لگا کہ اگر فراست صحیح ہے تو آپ خضر ہیں ۔‘‘ حضرت خضر فرماتے ہیں : اس سے میں نے یہ جانا کہ اللہ جل شانہ کے بعض ولی ایسے بھی ہیں جن کے علو مرتبے کی وجہ سے میں ان کو نہیں پہچانتا، حق تعالیٰ شانہ ان سے راضی ہو اور ہم کو بھی ان سے نفع پہنچائے۔‘‘[1] میں نے یہ واقعہ نقل کرنے سے قبل ہی اس کے جھوٹ ہونے کا حکم لگا دیا ہے، اگرچہ اس کے ناقل مولانا زکریا کے نام کے ساتھ امام، محدث اور قطب الارشاد بھی لکھا جاتا ہے۔ موصوف کو یہ بات معلوم رہی ہو گی کہ اللہ کے برگزیدہ بندے رسول بھی اللہ تعالیٰ سے براہ راست اس کا کلام نہیں سنتے تھے صرف موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک بار اپنی
[1] فضائل اعمال، فضائل حج، ص: ۱۲۸-۱۲۹