کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 468
یکساں درجہ میں مآخذ شریعت ہیں ، کیونکہ قرآن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے، جبکہ صوفیا کے نزدیک حدیث کی تعلیم اور اس کی کتابت دنیا داری ہے ابو سلیمان بعدالرحمن دارانی کا قول ہے: ’’جس کسی نے تین چیزں کیں وہ دنیا کی طرف مائل ہو گیا؛ جس نے معاش کے لیے کوشش کی، عورت سے شادی کی، یا حدیث کی کتابت کی۔‘‘ ان کا یہ بھی قول ہے کہ ’’میں نے اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے شادی کی ہو اور اپنے مقام پر قائم رہ سکا ہو۔‘‘[1] دارانی کے اس قول کو ایک شخص کا قول نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ تمام صوفیوں کا عقیدہ سمجھنا چاہیے اس لیے کہ صوفیا اپنے اکابر کے اقوال کو وحی الٰہی سے کم نہیں سمجھتے اس تناظر میں ان میں سے کسی ایک کی بات بھی قابل ردّ کیا قابل تنقید بھی نہیں ہوتی اس کی دلیل یہ ہے کہ حلاج اور ابن عربی اپنے کفریہ اقوال و افکار کے باوجود اولیاء اللہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ دوسري دلیل:…بذریعہ کشف حدیث کے ثبوت و عدم ثبوت کا حکم: احادیث کی صحت و سقم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی نسبت کو معلوم کرنے کا ذریعہ علم الاسناد ہے جو ان محدثین اور نقاد رجال کا وضع کردہ ہے جن کی پوری زندگی حدیثوں کی تحصیل، ان کی روایت اور راویان حدیث کے حالات کی چھان بین اور ان کی ثقاہت و عدم ثقاہت کی نقاب کشائی میں گزری ہے۔ محدثین کا گروہ اس اعتبار سے مسلمانوں کا مقدس ترین گروہ رہا ہے جو کتاب و سنت سے ماخوذ خالص اور بے آمیز عقائد رکھنے کے ساتھ ساتھ متبع سنت رسول بھی تھا وہ حدیثوں کے راویوں کو ثقہ اور ضعیف قرار دیتے ہوئے اپنے ذاتی رجحانات، اپنی پسند اور ناپسند اور مسلک و مذہب سے وابستگی سے بہت بلند ہو کر کوئی حکم لگاتے تھے اور راویوں کے حق میں ان کی جرح و تعدیل ان کے اجتہادات پر نہیں ، بلکہ ان کے مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہوتی تھی۔ ان محدثین اور نقاد رجال کی حق گوئی، صدق بیانی اور دیانت داری کا اعتراف غیر مسلم مغربی مورخین اور مستشرقین نے بھی کیا ہے۔ لہٰذا کسی حدیث کی صحت و سقم معلوم کرنے کا واحد ذریعہ علم الاسناد ہے جو علم روایت کے ساتھ علم درایت سے بھی عبارت ہے۔ صوفیا کی اکثریت حدیث کی روایت و درایت کے علم سے تہی دامن ہونے کے ساتھ ساتھ کشف اور ’’علم لدنی‘‘ کی مدعی رہی ہے اور ہے اور اکابر صوفیا ’’اصول حدیث‘‘ کے بجائے بذریعہ کشف احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دینے کے خوگر رہے ہیں ، نیز صوفیا کی کتابوں میں ’’علم لدنی‘‘ کا ذکر بھی بہت ملتا ہے اس علم سے ایسا علم مراد ہے جو ان کے نزدیک کسی واسطہ کے بغیر اللہ تعالیٰ سے براہ راست حاصل ہو جاتا ہے یہ علم بھی صوفیا کے نزدیک ماخذ شریعت ہے۔ اس علم کی دلیل وہ سورۂ کہف میں مذکور خضر علیہ السلام کے واقعہ سے دیتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ عَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عَلْمًاo﴾ (الکہف: ۶۵) ’’اور ہم نے اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا۔‘‘
[1] عوارف المعارف، ص: ۱۶۵ بحوالہ تصوف اور شریعت، ص ۲۶