کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 466
چاہیے، دوسری بات یہ کہ جس ذکر کا اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے اسی کو لوگوں سے بیان کیا جائے۔ تیسری بات یہ کہ ذکر کرتے وقت صرف اللہ کو یاد کرنا اور صرف اس کی رضا اور خوشنودی کا حصول مقصود ہو، اگر ذاکر ذکر کے وقت اپنے دل میں اپنے پیر یا شیخ کا خیال اور تصور جمانے کی کوشش کرے گا تو یہ اللہ کا ذکر نہیں رہ جائے گا، بلکہ شرک بن جائے گا۔ چوتھی بات یہ کہ جن اذکار کے اوقات اور تعداد درست اور صحیح ہیں انہیں کی پابندی کی جائے کیونکہ اور کوئی بھی انسان اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے یا دوسروں کے لیے ان کے اوقات اور تعداد کا تعین کرے، یاد رہے کہ من گھڑت اذکار اس دلیل سے درست نہیں ہو سکتے کہ ان کے نتائج بڑے اچھے نکلتے ہیں ایک مومن اللہ و رسول کے حکم کی تعمیل کا مکلف ہے تجربہ اور نتیجہ کی روشنی میں کوئی عبادت ایجاد کرنا شریعت سازی ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اللہ و رسول پر ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ ۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عصر صحابہ کے بعد نئے نئے علوم کی ایجاد؛ مثلاً نحو و صرف، علم تفسیر، علم لغت اور بعد میں طب، انجینئرنگ، جراحت اور نئی نئی صنعتوں کی ایجاد، مدرسوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، اسپتالوں وغیرہ کا قیام تو یہ چیزیں ضروری اور اہم ہونے کے باوجود نہ عبادات میں داخل ہیں ، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے میں ان کے امکانات اور وسائل تھے، رہا علم نحو و صرف، علم تفسیر اور علم حدیث وغیرہ تو ان کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ہی کی زبان بولتے تھے، عربی زبان ان کی اپنی زبان تھی، معلم انسانیت ان کے درمیان تھے اور آپ سے رجوع ہو کر صحابہ کرام دینی احکام معلوم کر لیتے تھے۔ احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر معلوم کر لیتے تھے سب کے سب عدول اور سچے تھے لہٰذا کسی ایسی بات کے آپ کی طرف منسوب ہونے کا امکان نہیں تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ فرمائی ہو، عصر صحابہ کے بعد جب غیر عرب اسلام لانے لگے تو اس وقت نئے علوم کی ضرورت پڑی اور اس ضرورت کے تحت ان کی ایجاد کا آغاز ہوا۔ ۶۔ مقاصد اور ذرائع: اذکار و اوراد، اشغال و اعمال اور ریاضتیں اور مجاہدے مقاصد بھی ہیں اور ذرائع بھی اور دونوں صورتوں میں عبادت ہیں مثال کے طور پر نماز مقصد بھی ہے اور اللہ کو یاد کرنے کا ذریعہ بھی: ﴿اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَافَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْo﴾ (طٰہٰ: ۱۴) ’’درحقیقت میں ہی ہوں اللہ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت: ۴۵) ’’اور نماز قائم کر درحقیقت نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘