کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 465
قرآن یہ صراحت کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو باقاعدہ کتاب و سنت کی تعلیم دیتے تھے اور ان کو دین و شریعت، اللہ تعالیٰ کی محبت سے دلوں کو معمور کرنے، دلوں میں نرمی اور رقت پیدا کرنے اور ان کو حسن اخلاق سے سنوارنے کے لیے تمام ضروری باتیں سکھاتے تھے، یعنی ان کا ’’تزکیہ‘‘ فرماتے تھے، چنانچہ قرآن پاک میں آپ کے جو فرائض منصبی بیان ہوئے ہیں ان کی فہرست میں : ’’وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ ’’وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘ اور ’’وَیُزَکِّیْکُمْ‘‘ اور اسی طرح ’’وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ‘‘ بھی شامل ہے۔ کیا ان قرآنی تصریحات کے بعد بھی یہ دعویٰ درست اور قابل قبول ہو سکتا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں محض آپ کی صحبت ہی سے تعلیم و تربیت کی طرح ایمانی کیفیتیں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کا فکر و خیال وغیرہ حاصل ہو جایا کرتا تھا‘‘؟!! جہاں تک شہوتوں کو مغلوب کرنے اور طبیعتوں میں نرمی اور ملاطفت پیدا کرنے کا تعلق ہے، تو حدیث کی امہات الکتب میں ’’کتاب الرقاق‘‘ کے تحت جو احادیث درج ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر ہی یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ حدیثیں دلوں کی بیماریوں کے علاج اور ان کو ان سے پاک کرنے کے ایسے مکمل اور شافی نسخہ کا درجہ رکھتی ہیں جس کو برت کر اور جس پر عمل کر کے ہر انسان، ہر دور اور زمانے میں اللہ کا مومن و موحد اور صالح اور مقبول بندہ بن سکتا ہے۔ ۴۔ صوفیانہ اذکار و اوراد اور روحانی اشغال و اعمال اور مجاہدوں اور ریاضتوں کو قرآن پاک کی جمع و تدوین، مدرسوں کے قیام اور نئے نئے علوم کی ایجاد پر قیاس کرنا خلط مبحث بھی ہے اور قیاس مع الفارق بھی؛ اولاً تو قرآن پاک کی کتابت متفرق اجزا کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں ہو چکی تھی، اب رہا ایک مصحف میں آیتوں اور سورتوں میں ترتیب کے ساتھ اس کو جمع کرنے کا مسئلہ تو اپنی اہمیت کے باوجود اس پر حیات نبوی میں عمل ممکن نہیں تھا، کیونکہ نزول قرآن کا سلسلہ جاری تھا۔ ثانیاً قرآن کی جمع و تدوین کا کام دینی کام ہونے اور مطلوب و مقصود ہونے کے باوجود اصطلاحی معنی میں عبادت نہیں تھا جس کا اپنی تمام جزئیات کے ساتھ منصوص ہونا ضروری ہو، بلکہ اس کا مقصد محض قرآن کی حفاظت تھا اور یہ مقصد ہر شکل میں حاصل کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ اس کی آیتوں اور سورتوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہ ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو اور اس کے الفاظ میں کوئی تحریف نہ ہو۔ اس کے برعکس ذکر و اذکار، روحانی ریاضت اور مجاہدہ وغیرہ کا تعلق خالص عبادت سے ہے، کوئی بھی انسان اپنے ذوق اور اپنے علم سے یہ نہیں معلوم کر سکتا کہ اللہ کو یاد کس طرح کیا جائے، اس سے دعا کس طرح کی جائے، اللہ سے تعلق پیدا کرنے اور اس تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے کون سے اعمال انجام دیے جائیں وغیرہ یہ اور اس قبیل کے تمام اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجیہ، ارشاد اور عملی نمونے کے محتاج ہیں ۔ ذکر و فکر میں کثرت، اگرچہ مقصود و مطلوب ہے، مگر بے ضابطہ نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہر ذکر کو منصوص ہونا