کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 464
محبت اور اس کی رضا کا فکر و خیال حاصل ہو جایا کرتا تھا، مگر بعد میں ماحول کے زیادہ بگڑ جانے اور استعدادوں میں کمی پیدا ہو جانے کی وجہ سے نفس کو توڑنے، شہوتوں کو مغلوب کرنے اور طبیعتوں میں نرمی اور ملاطفت پیدا کرنے کی غرض سے بعض مشائخ نے جہاں اپنی صحبتوں کے ساتھ ذکر و فکر کی کثرت تجویز کی ہے، وہیں خاص قسم کی ریاضتیں اور مجاہدے تجویز کیے ہیں جو فی نفسہ مامور بہ نہیں ہیں ، بلکہ صرف علاج اور تدبیر کے طور پر ہیں ، اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن پاک کی جمع و تدوین، مدرسوں کے قیام اور نئے نئے علوم کی ایجاد جائز سمجھی گئی تو پھر ان نئے اذکار و اشغال کو بدعت سمجھنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟ تو یہ دعویٰ سراسر جھوٹ ہے، خلط مبحث ہے اور قیاس مع الفارق ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ’’یہ دعویٰ بالکل غلط اور سیرت پاک سے عدم واقفیت سے عبارت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں محض آپ کی صحبت ہی سے تعلیم و تربیت کی طرح ایمانی کیفیتیں ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کا فکر و خیال حاصل ہو جایا کرتا تھا، کیونکہ قرآنی آیات، احادیث اور سیرت پاک کے واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمانی کیفیتیں ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کا فکر و خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت اور اس تعلیم و تربیت کے قبول اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا نتیجہ تھا اور اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اندر فرق مراتب بھی تھا دوسرے لفظوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ان صفتوں کا سبب محض صحبت رسول نہیں تھی، بلکہ یہ صحبت ایک خاص امتیاز تھی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتباع رسول کے ساتھ حاصل تھی، اگر ان ایمانی کیفیتوں اور اللہ و رسول سے ان کی محبت کا سبب محض صحبتِ رسول ہوتی تو منافقین بھی صحابہ میں شمار ہوتے، مگر اس صحبت کے باوجود ان کا شمار اللہ و رسول کے شدید دشمنوں میں ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بحالت ایمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو رفاقت حاصل تھی وہ اپنی اس امتیازی شان کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چون و چرا پیروی سے ان کو بے نیاز نہیں بناتی تھی، دوسرے لفظوں میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ان کی منفرد ایمانی کیفیتوں کا سبب نہیں تھی، بلکہ اس صحبت و رفاقت کے باوجود ان سے اللہ و رسول کی وہی طاعت، اللہ و رسول سے وہی محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی پیروی اور راہ حق میں وہی ایثار و قربانی مطلوب تھی جو ان کے بعد کے مسلمانوں سے مطلوب ہوئی، آج کے مسلمانوں سے مطلوب ہے اور قیامت تک پیدا ہونے والے مسلمانوں سے مطلبو ہو گی اور ہر دور کے سچے مسلمان، شرف صحابیت کے سوا دوسرے تمام امتیازات سے نوازے جائیں گے۔ حدیث میں عصر صحابہ کے بعد کے مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اخوانی‘‘ -میرے بھائی- کا لقب دیا ہے۔[1]
[1] صحیح مسلم: ۲۴۹