کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 463
تبصرہ: صوفی رائپوری کی مذکورہ بالا تمام باتیں یا تمام دعوے بلا استثنا باطل اور مردود ہیں اور دین سے ان کی عدم واقفیت کے ترجمان ہیں : ۱۔ صوفیانہ اذکار و اشغال اور مجاہدوں اور ریاضتوں کا تعلق عبادات اور تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق سے ہے اور عبادات اپنی تمام تر جزئیات اور تزکیۂ نفس و تہذیب اخلاق کے تمام طریقے اسی صورت میں قابل عمل اور عند اللہ معتبر اور مقبول ہیں ، جبکہ وہ منصوص ہوں ، کیونکہ صرف رسول ہی کو بذریعہ وحی یہ معلوم ہے کہ اللہ کی عبادت کس طرح کی جائے، اس کو یاد کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے، دلوں کا تزکیہ کس طرح کیا جائے اور ان کو لاحق ہونے والی برائیوں اور بیماریوں سے ان کو پاک کس طرح کیا جائے اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی تھی جس کو آپ نے کما حقہ ادا کر دیا، ارشاد الٰہی ہے: ﴿کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۵۱) ’’جس طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘ آیت مبارکہ میں ’’یُزَکِّیْکُمْ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرض منصبی کا بیان ہے جس میں دلوں کو تمام رذائل، برائیوں اور کجیوں سے پاک کرنا اور تمام فضائل اخلاق سے ان کو سنوارنا داخل ہے۔ مثال کے طور پر نیکی، احسان، صلہ رحمی، صدق گوئی، رحم دلی اور دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں کا حکم دینا اور عملاً اس کا نمونہ پیش کرنا ’’یُزَکِّیْکُمْ‘‘ میں داخل ہے، اسی طرح آپ نے جن رذائل سے منع فرمایا ہے، یعنی گناہوں کی تمام قسموں ، قطع رحمی، ظلم و جارحیت، والدین کی نافرمانی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور اخلاقی برائیوں کے ارتکاب سے منع کیا ہے، یہ بھی تزکیۂ نفس میں داخل ہیں ، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ فرض منصبی دوسرے فرائض کے ساتھ ادا کر لیا اس کے بعد اس دنیا سے آپ کی رحلت ہوئی۔ ۲۔ جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ دین میں جو چیز مقصود اور مامور بہ ہو اور اللہ و رسول نے اس کا حاصل کرنا ضروری قرار دیا ہو، لیکن کسی وقت زمانہ کے حالات بدل جانے سے وہ اس طریقے سے حاصل نہ کی جا سکتی ہو جس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں حاصل ہو جایا کرتی تھی، بلکہ اس کے واسطے کوئی اور طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔‘‘ تو ایسا عقیدہ رکھنے والا مسلمان نہیں ہے، کیونکہ یہ تکمیل دین کے اعلان الٰہی کے انکار سے عبارت ہے۔ ۳۔ یہ دعویٰ کہ ’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں محض آپ کی صحبت ہی سے تعلیم و تربیت کی طرح ایمانی کیفیتیں ، اللہ تعالیٰ کی