کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 462
حاصل تھی اور وہ بھی دن و رات آپ کے رخ انور کو دیکھتے تھے اور منافقین تو جمعہ و جماعت میں شریک بھی ہوتے تھے، آپ کی مجلسوں میں حاضری بھی دیتے تھے اور کفار کے خلاف غزوات میں حصہ بھی لیتے تھے، پھر بھی اللہ و رسول کے بہت بڑے دشمن تھے۔ رائپوری کے مغالطے: عبدالقادر رائپوری برصغیر کے صوفیوں کے اکابر میں شمار ہوتے ہیں یہ عالم دین تو نہیں تھے، لیکن اپنی صوفیانہ ریاضتوں اور اپنے صوفیانہ افکار و نظریات کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے کہ مولانا محمد منظور نعمانی نے بھی ان کی خانقاہ کی چوکھٹ پر جبہہ سایٔ ضروری سمجھی اور تصوف و سلوک کے من گھڑت اعمال و اشغال سے متعلق ان کے مغالطوں کو اپنی کتاب ’’تصوف کیا ہے؟‘‘ میں بنظر استحسان نقل کر دینا ضروری خیال کیا ہے تاکہ راہ سلوک کے مسافر ان پر عمل کر کے اپنی عاقبت سنواریں ؟ منظور نعمانی نے اپنی کتاب کے صفحات ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۴۸، اور ۴۹ پر صوفیوں کی ایجاد کردہ بدعتوں سے متعلق رائپوری کے مغالطے ’’افادات‘‘ کے طور پر نقل کیے ہیں میں اُن کا ایسا خلاصہ بیان کر کے اس پر معروضی تبصرہ کر دینا چاہتا ہوں جس سے جہاں صوفیا کے عقائد کو سمجھنے میں مدد ملے گی وہیں ان کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر بھی ان شاء اللہ واضح ہو جائے گا، فرماتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں محض آپ کی صحبت ہی سے تعلیم و تربیت کی طرح ایمانی کیفیتیں ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کا فکر و خیال حاصل ہو جایا کرتا تھا، مگر بعد میں ماحول کے زیادہ بگڑ جانے اور استعدادوں میں کمی پیدا ہو جانے کی وجہ سے نفس کو توڑنے، شہوتوں کو مغلوب کرنے اور طبیعتوں میں نرمی اور ملاطفت پیدا کرنے کی غرض سے بعض مشائخ نے جہاں اپنی صحبتوں کے ساتھ ذکر و فکر کی کثرت تجویز کی ہے، وہیں خاص قسم کی ریاضتیں اور مجاہدے بھی تجویز کیے ہیں ، جو فی نفسہ مقصود اور مامور بہ نہیں ہیں ، بلکہ صرف علاج اور تدبیر کے طور پر ہیں اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن پاک کی جمع و تدوین، مدرسوں کے قیام اور نئے نئے علوم کی ایجاد جائز سمجھی گئی تو پھر ان نئے اذکار و اشغال کو بدعت سمجھنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟‘‘ ’’اگر دین میں کوئی چیز مقصود اور مامور بہ ہو اور اللہ و رسول نے اس کا حاصل کرنا ضروری قرار دیا ہو، لیکن کسی وقت زمانہ کے حالات بدل جانے سے وہ اس طریقے سے حاصل نہ کی جا سکتی ہو جس طریقے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے زمانے میں حاصل ہو جایا کرتی تھی، بلکہ اس کے واسطے کوئی اور طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو کیا اس نئے طریقے کے استعمال کو بھی آپ دین میں اضافہ اور بدعت کہیں گے؟‘‘