کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 461
اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے رسول کے اطاعت گزار بندوں کو اپنے انعام یافتہ جن بندوں کی معیت سے سرفراز فرمانے کا وعدہ کیا ہے ان کی فہرست میں ’’اولیا اللہ‘‘ کا ذکر نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ کا ہر مومن بندہ ولی ہے، جبکہ اس کے انعام یافتہ بندے اس کے خاص بندے ہیں : ﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo﴾ (النساء: ۶۹) ’’اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو یہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے؛ نبیین اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ لوگ بڑے اچھے ساتھی ہیں ۔‘‘ تصوف طریق نبوت نہیں ہے: باعتراف اکابر صوفیا تصوفت راہ نبوت نہیں ، راہ ولایت ہے اگرچہ اس میں اسلام کی بھی کچھ باتیں ہیں ، مگر غلط انداز میں ، لہٰذا صوفیا طریق نبوت کے پیرو نہیں ہیں اور چونکہ طریق نبوت کے سوا تمام طریقے گمراہی کے راستے اور طریقے ہیں ، اس لیے تصوف سیدھا راستہ، یا راہ ہدایت یا اللہ کے انعام یافتہ بندوں کا مسلک نہیں ہے۔ صوفی ولی نہیں ہو سکتا: صوفیا وحدۃ الوجود، تصور شیخ اور کائنات کے امور میں من گھڑت اولیاء اللہ کے صاحب تصرف ہونے کا عقیدہ رکھنے، فنا و بقا پر عمل پیرا ہونے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقۂ تزکیہ و احسان کو زمانے کے تقاضوں کے بدل جانے کے نتیجے میں ناکافی سمجھنے، اور ذکر و اذکار اور ریاضت کے خودساختہ طریقوں پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ کے ولی نہیں ہو سکتے، اس لیے کہ ولی ہونے کی بنیادی شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اور مطلق اتباع اور پیروی ہے۔ تزکیۂ نفس صرف طریقۂ نبوی کے ذریعہ ممکن ہے: عبادات کی قسم کے جتنے طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے بتا دیے ہیں ، اسی طرح دلوں کے روگ کا علاج کرنے اور ان کو پاک کرنے کے جتنے طریقے کتاب و سنت میں منصوص ہیں وہی کافی و شافی ہیں ، باین معنیٰ کہ حالات کے بدل جانے کے نتیجے میں ان کو ناکافی سمجھنا اور پھر نئے نئے طریقے ایجاد کرنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر ایمان کے منافی ہے۔ شرفِ صحابیت اور اتباعِ رسول: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عام مسلمانوں پر جو فضیلت حاصل ہے، وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ پہلے درجہ میں اللہ و رسول پر ایمان، اور اللہ و رسول کے احکام کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چون و چرا پیروی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ہے، تنہا آپ کی صحبت و رفاقت نہیں ، کیونکہ یہ صحبت و رفاقت منافقین اور کفار کو بھی