کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 460
﴿لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ﴾ (المومن: ۱۶) ’’آج کس کی بادشاہی ہے؟ اللہ ہی کی ہے جو ایک غالب اللہ ہے۔‘‘ قرآن پاک میں اولیاء بصورت جمع اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت کے ساتھ صرف ایک بار آیا ہے: ﴿اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَo﴾ (یونس: ۶۲-۶۳) ’’سن لو، درحقیقت اللہ کے دوست وہ ہیں جن پر نہ کسی خوف کا موقع ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جو اللہ کی ناراضی سے بچتے تھے۔‘‘ یہ آیت مبارکہ اس امر میں نص قاطع ہے کہ اللہ کے ولی اس کے مومن و متقی بندے ہیں ، اور اللہ کا مومن و متقی بندہ صرف وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع اور پیرو ہو۔ راہِ ہدایت صرف ایک ہے: وہ سیدھا راستہ جس پر چل کر ایک انسان اللہ کا محبوب و مقبول بندہ بن سکتا ہے، صرف ایک ہے اور یہ وہی راستہ اور طریقہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں پوری وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیرت پاک کے ذریعہ اس کی تمام علامتیں واضح اور متعین فرما دی ہیں اس کے سوا تمام راستے گمراہی اور ضلالت کے راستے ہیں : ﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo﴾ (الانعام: ۱۵۳) ’’اور درحقیقت یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو، ورنہ وہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کر دیں گے اس نے تمہیں اسی کا تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم اللہ کے غضب سے بچ سکو۔‘‘ مطلوبِ مومن راہ: سورۂ انعام کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن و موحد بندوں کو جس سیدھے راستے یا راہ ہدایت پر چلنے کا تاکیدی حکم دیا ہے اس کے موحد بندے نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کی قراء ت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اس کی ہدایت کی درخواست کرتے ہیں : ﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo﴾ (الفاتحۃ: ۵) ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا ہے۔‘‘ منعم علیہم کی فہرست میں اولیاء اللہ شامل نہیں ہیں :