کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 46
علامہ ندوی نے معتزلہ اور متکلمین کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے عقائد کے باب میں اخبار آحاد کے نا قابل استدلال ہونے کا دعویٰ تو کر دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان لوگوں کے عقائد کو تو قرآن کی بھی تائید حاصل نہیں ہے اور ان کا عقیدہ توحید تک من گھڑت ہے اسی لیے میں نے پہلے معتزلہ اور متکلمین کے عقائد تفصیل سے بیان کردیے ہیں ، پھر عقائد کے باب میں خبر واحد کے نا قابل استدلال ہونے سے متعلق ان کے اکابر کے اقوال نقل کر دیے ہیں تاکہ یہ دکھا سکوں کہ اس مسئلہ میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ انہی کے اقوال کا اعادہ ہے۔ ۵۔ غامدی کی بڑ: جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر افتخار برنی اپنے امام ومرشد مولانا اصلاحی کے خرمن کے خوشہ چین ہیں اور انہی کے افکار کی تبلیغ وترویج ان کا مقصد زندگی ہے اصلاحی صاحب کو حدیث سے نفرت وبیزاری کے اظہار میں جو تحفظات تھے، غامدی کے یہاں وہ بھی نہیں ہیں ، مزید یہ کہ ان کی باتوں میں بڑے تضادات ہیں جن کی نقاب کشائی اس وقت میرا موضوع نہیں ہے۔ خبر واحد کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر ’’اخبار آحاد‘‘ کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا… یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے۔‘‘ [1] لیجئے مسئلہ ہی ختم ہو گیا، ’’اخبار آحاد جب حدیث کے دائرے میں آتی ہی نہیں ، تو پھر دین میں ان سے عقیدہ وعمل کا اضافہ چہ معنی وارد؟ غامدی صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کی روایتوں کو ’’زیادہ تر‘‘ اخبار آحاد قرار دیا ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان کی ضد ’’اخبار متواترۃ‘‘ کی تعریف اور تعداد پر محدثین اور غیر محدثین کے عدم اتفاق کی وجہ سے عالم واقعہ میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں ، پھر تو ساری احادیث ’’آحاد‘‘ قرار پائیں ایسی صورت میں ان احادیث سے جن عقائد واعمال کا پتا چلتا ہے وہ سب مردود ہیں ؟!! اس کے بعد یہ نئے مجدد اسلام فرماتے ہیں کہ: ’’لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسوانح، آپ کے اسوۂ حسنہ اور دین سے متعلق آپ کی تفہیم وتبیین کے جاننے کا سب سے بڑ اور اہم ترین ذریعہ حدیث ہی ہے۔‘‘ [2] جب بقول آپ کے ’’اخبار آحاد‘‘ حدیث کے دائرے میں آتی ہی نہیں ، تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک، آپ کے اسوۂ حسنہ اور قرآن پاک کی تفہیم وتبیین کے جاننے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ حدیث کس طرح قرار پائی؟
[1] اصول ومبادی ص۷۷ [2] ص: ۷۷