کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 459
پر نہ دیکھے وہ مرید نہیں ، مرید نہیں ، مرید نہیں ہے۔‘‘ پیر رومی کے ان اشعار سے صوفیا کے ’’تصور شیخ‘‘ کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے جس کی ترجمانی ’’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے مصنف سابق علامہ اور لاحق مولوی سلیمان نے اپنے پیر مولانا تھانوی کی بابت کی ہے، فرماتے ہیں : پا کر تجھے اپنے کو میں بھول گیا ہوں ہر سو دوزیانِ دوسرا میں بھول گیا ہوں جس دن سے مرے دل میں تری یاد بسی ہے ہر ایک کو میں تیرے سوا بھول گیا ہوں آتا ہے خدا بھی ترے صدقہ میں مجھے یاد گویا کہ بظاہر میں خدا بھول گیا ہوں [1] ولایت کا ہوّا: تصوف میں اللہ تعالیٰ تک لے جانے والے دو راستوں ، طریق نبوت اور طریق ولایت کے ذکر سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن کے مطابق محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین و شریعت دے کر بھیجے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے تزکیہ و تطہیر کے جس طریقے کا مکلف بنایا تھا صرف وہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے بالمقابل ایک دوسرا طریقہ طریقۂ ولایت بھی ہے جو طریق نبوت ہی کی طرح، بلکہ اس سے بہتر صورت میں اللہ تک پہنچانے والا راستہ ہے، تصوف کی کتابوں اور صوفیا کے حلقوں میں اس ولایت کا جو ہوّا بھی پیش کیا جاتا ہو، قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے؛ جہاں تک ’’ولایت‘‘ کا تعلق ہے تو اس کا ذکر پورے قرآن پاک میں صرف ایک بار آیا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر: ﴿ہُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ﴾ (الکہف: ۴۴) ’’وہاں اختیار اللہ برحق کے لیے ہو گا۔‘‘ ’’ہُنَالِکَ‘‘ سے مراد قیامت کا دن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جزا اور سزا کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہو گا اور اس دنیا کی زندگی میں طبعی امور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو محدود اور عارضی اختیارات دے رکھے ہیں اُن سے اس دن وہ سب چھن جائیں گے۔ یہ آیت مبارکہ سورۂ انفطار کی اس آیت کے مانند ہے: ﴿وَ الْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِo﴾ (الانفطار: ۱۹) ’’اور اس دن حکم صرف اللہ کا ہو گا۔‘‘ ’’اَ لْاَمْرُ‘‘ سے مراد حکم اور اقتدار ہے۔
[1] دین تصوف و طریقت، ص ۸۱