کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 458
راہ و رسم سے غافل نہیں ہوتا ہے۔ سید صاحب نے فرمایا: شرک کی کسی طرح ہمت نہیں ہو سکتی، ہاں کتاب و سنت و اجماعِ امت سے کوئی سند لائیں اور اچھی طرح سے اطمینان ہو جائے کہ دونوں ایک چیز نہیں تو خطرہ دور ہو سکتا ہے۔[1] مقام عبرت: اس واقعہ سے جس حقیقت کا اظہار ہو رہا ہے وہ یہ کہ صوفیا کے پاس اپنے بنیادی عقائد میں بھی کتاب و سنت کی کوئی دلیل نہیں ہے، سید احمد نے ’’تصور شیخ‘‘ کو صریح بت پرستی کہہ کر اس کو قبول کر لینے سے معذرت کر لی تھی، اور مولانا علی میاں نے سید صاحب کی اس معذرت کی توجیہ کرتے ہوئے تصور شیخ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور قرآن پاک اور سید صاحب کی کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ کے اقتباسات سے اس کو صریح بت پرستی اور شرک ثابت کیا ہے۔ [2] یہ سب کچھ واضح ہو جانے کے بعد اس واقعہ میں عبرت کا جو مقام ہے وہ یہ کہ شاہ عبدالعزیز نے سید احمد کی زبان سے ’’تصور شیخ‘‘ کو بت پرستی قرار دیے جانے پر یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری بات صحیح نہیں ہے؛ یہ بت پرستی نہیں ہے، بلکہ ’’دین تصوف‘‘ کی ایک بنیادی کتاب دیوان حافظ کا ایک شعر پڑھ دیا جس میں شاعر نے ’’پیر‘‘ کو مطاع مطلق قرار دیتے ہوئے اس کے ہر حکم کی بجا آوری کی تعلیم دی ہے اگرچہ وہ ارتکاب کفر ہی کا حکم ہو، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کے کام میں کسی بھی شخص کی طاعت کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ)) [3] ’’معصیت میں کسی کی طاعت روا نہیں ، طاعت تو صرف معروف کام میں ہے۔‘‘ صوفی کا پیر اللہ کا پرتو ہے: صوفیا کے یہاں پیر کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ رسول اللہ فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہیں ہے، تصوف کے قرآن مثنوی رومی میں پیر کو اللہ کا سایہ اور نائب قرار دیا گیا ہے: پیر کامل صورت ظل عُلی یعنی دید پیر دید کبریا ہر کہ پیر و ذات را یکجانہ دید نے مرید و نے مرید نے مرید ’’پیر کامل ذات بلند کا پرتو ہے، یعنی پیر کو دیکھنا ذات کبریا کو دیکھنا ہے۔ جو کوئی پیر اور ذات الٰہی کو ایک مقام
[1] ص ۱۲۱ [2] ملاحظہ ہو: ص ۱۲۴۔ ۱۲۶ [3] بخاری: ۴۳۴۰، ۷۲۵۴، مسلم: ۱۸۴۰