کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 457
بنیادی فرق ہے ان کے نزدیک صوفیہ کا طریقہ ’’فنا و بقا‘‘ سے عبارت ہے، یہی روحانی تجربہ اس کا امتیازی پہلو ہے۔ جہاں تک طریقۂ نبوت کا تعلق ہے تو اس میں اس تجربہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ [1] تصوف کی دنیا کے امام ابو القاسم عبدالکریم قشیری نے ’’الرسالۃ القشیریہ‘‘ میں اور ابو اسماعیل ہروی نے ’’منازل السائرین‘‘ میں ’’فنا و بقا‘‘ پر تفصیل سے گفتگو کی ہے جس سے تصوف میں اس کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔ حافظ ابن القیم نے مدارج السالیکن میں ہروی کے مغالطوں کو بیان کرتے ہوئے ان کے دعووں کا ردّ کیا ہے۔ میں اس باب میں ان شاء اللہ حدیث سے صوفیا کے تعلق کے تناظر میں ان کے عقائد اور اعمال کا جائزہ لوں گا، کیونکہ یہی میرا موضوع بحث ہے، لیکن اصل موضوع شروع کرنے سے قبل اپنے قارئین کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ تصوف کے ایک منفرد محقق مولانا سید محمد علی حسینی نے تصوف و طریقت کو دین اسلام کے متوازی ایک مستقل دین قرار دیا ہے، مولانا موصوف کی باتوں میں اس اعتبار سے بڑا وزن ہے کہ ان کی پوری زندگی صوفیوں کے درمیان گزری ہے۔ انہوں نے ان کے افکار و عقائد کو عملی شکل میں دیکھا ہے اور تصوف کے مسائل پر ان سے تفصیلی بحثیں کی ہیں اور اپنی کتاب ’’دین تصوف و طریقت‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے دلائل کے ساتھ لکھا ہے۔ تصوف کے مستقل دین ہونے کے دعوے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اللہ تک لے جانے والے راستے دو ہیں ؛ طریق نبوت اور طریق ولایت[2]اور یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ طریق ولایت سے مراد تصوف ہے۔ طریق ولایت کے طریق نبوت سے مختلف ہونے کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جس کا تذکرہ مولانا علی میاں نے اپنی کتاب ’’سیرت سید احمد‘‘ میں کیا ہے، وہ شاہ عبدالعزیز کے ہاتھ پر سید احمد کی بیعت اور تصوف کے تینوں طریقوں : چشتیہ، قادریہ، اور نقشبندیہ میں ان کے داخل کر لیے جانے کے بعد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’تعلیم سلوک کے ضمن میں حضرت شاہ صاحب نے حسب معمول ’’تصور شیخ‘‘ کی تعلیم کی، سید صاحب نے نہایت ادب سے عرض کیا: حضرت اس میں اور بت پرستی میں کیا فرق ہے؟ اُس میں صورت سنگی اور قرطاسی ہوتی ہے اور اِس میں صورت خیالی جو دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے اور اس کی طرف توجہ اور اس سے استعانت ہوتی ہے۔ شاہ صاحب نے حافظ کا یہ شعر پڑھا: بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نہ بود زِراہ و رسم منزلہا اگر پیر مغاں حکم دے تو جائے نماز کو شراب سے رنگین کر دو، کیونکہ راہ سلوک کا مسافر سلوک کی منزلوں کی
[1] ص ۸ [2] ملاحظہ ہو شریعت و طریقت، ص ۴۵-۴۷