کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 456
باب نہم: حدیث اور صوفیا حدیث اور فقہاء کے بعد حدیث اور صوفیا کا باب اس لیے ضروری قرار پایا کہ اولاً تو حدیث سے تعلق کے حوالہ سے اوپر جن فقہاء کے افکار اور طرز عمل کا جائزہ لیا گیا ہے وہ سب فقہائے احناف تھے، جبکہ صوفیا میں دوسرے فقہی مسلکوں سے وابستہ لوگ بھی شامل ہیں ۔ ثانیاً فقہاء کے مقابلے میں صوفیا اپنے ظاہر کے اعتبار سے اللہ کے صالح بندے شمار ہوتے ہیں اور یہی ان کی شناخت بن چکی ہے، جبکہ فقہاء کے ذکر میں صلاح و تقویٰ سے تعرض نہیں کیا جاتا۔ صوفیا کے ساتھ ظاہری صلاح کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ ظاہری صلاح اگر باطنی صلاح کا غماز اور آئینہ دار ہو تب تو عنداللہ معبتر ہے ورنہ فریب نظر اور مردود ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ صوفیا کی اکثریت اسی ظاہری صلاح سے موصوف رہی ہے اور ہے۔ رہا ان کا باطن تو ان کی بدعقیدگی، ان کی من گھڑت ریاضتوں ، کتاب و سنت کی تعلیمات سے ان کی دوری اور اہل حق سے ان کی شدید نفرتوں کی وجہ سے صلاح و تقویٰ کی روح سے خالی رہا ہے۔ تصوف جس کی نسبت سے صوفیا کو صوفی کا نام ملا ہے ایسا مسلکِ حیات ہے جس کی صحیح اور دو ٹوک تعریف آج تک کسی نے نہیں کی ہے۔ تصوف کے موضوع پر عربی اور اردو میں جو کتابیں ملتی ہیں ان کے لکھنے والے یا تو صوفی رہے ہیں یا غیر صوفی اور غیر صوفی مصنفین میں یا تو تصوف کے شدید مخالف رہے ہیں یا ایسے لوگ جنہوں نے محض ایک اسلامی مذہب اور مسلک کے اعتبار سے اس کو موضوع بحث بنایا ہے اور ان فریقوں میں سے کسی نے بھی تصوف کے ایسے خدوخال بیان نہیں کیے ہیں جن کی روشنی میں اس کی صحیح اور واضح تصویر سامنے آتی ہو۔ جہاں تک صوفی مصنفین کا تعلق ہے تو انہوں نے تصوف کا صحیح اور متعین تعارف کرانے کے بجائے اس کے بعض ایسے پہلوؤں کو بیان کیا ہے جو اسلامی تعلیمات سے متعارض نظر نہیں آتے، بلکہ بڑی حد تک ان سے ہم آنگ نظر آتے ہیں ، اور تصوف کے جو پہلو اسلام سے متعارض ہیں اور جن کی اکثریت ہے ان کو نہیں چھیڑا ہے۔ یہ تو عام صوفیا کا انداز ہے، رہے برصغیر کے صوفیا خاص طور پر اکابر دیوبند، تو ان کا دعویٰ ہے کہ جس احسان کا ذکر حدیث جبریل میں آیا ہے اور احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کا جس طریقہ سے تزکیہ فرماتے تھے، صوفیا اسی پر کاربند ہیں ، لیکن ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری نے، جو شیخ احمد سرہندی کے افکار پر سند اور اتھارٹی ہیں اپنی کتاب تصوف اور شریعت میں یہ انکشاف کیا ہے کہ تصوف کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں شیخ سرہندی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے نہایت جرات سے یہ اعلان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تزکیہ و احسان اور صوفیا کے اختیار کردہ تزکیہ و احسان میں ایک