کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 455
شوافع فجر کی نماز تین رکعتیں پڑھتے ہیں اور ہمارے حنفی علماء نے جب یہ مفاسد دیکھے تو ان سورتوں کو پڑھنا ترک کر دیا۔‘‘[1] مولانا لکھنوی سے ایک سوال ہے کہ سنت سے اس بے اعتنائی کا سبب کیا ہے اور کیا لوگوں کی جہالت ترکِ سنت کے لیے وجہ جواز ہے؟ نتیجۂ بحث: حدیث اور فقہاء کے اس باب میں میں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فقہائے احناف کے طرز عمل کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے میں نے اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ اپنی ہر بات دلیل سے مدلل کر کے پیش کروں اور ہر دلیل کا حوالہ بھی دیتا جاؤں ۔ مذکورہ بالا بحث سنجیدگی سے اور مسلکی تعصب کی عینک اتار کر پڑھنے والے ان شاء اللہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ حدیث کے قبول و رد کے مسئلہ میں فقہائے احناف نے جس چیز کو معیار بنایا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے حدیث کی صحت و سقم ہرگز نہیں ہے، بلکہ ان کے ائمہ کے اقوال سے اس کی موافقت اور عدم موافقت ہے، چنانچہ اپنے ائمہ کے اقوال اور اجتہادی و قیاسی احکام سے ہم آہنگ ضعیف سے ضعیف تر بلکہ موضوع اور باطل روایات تک کو انہوں نے لے لیا ہے اور ان اقوال اور احکام سے متعارض صحیح ترین حدیثوں کو رد کر دیا ہے جس کی مثالوں سے فقہ حنفی کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ اس بحث سے قارئین کرام کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ فقہائے احناف میں جن لوگوں کا علم حدیث سے کوئی تعلق رہا ہے ان کا کردار عام فقہاء سے بہتر نہیں رہا ہے، بلکہ اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ اپنی اس شہرت سے ان فقہاء نے مسلمانوں یا اپنے پیروؤں کے دلوں سے حدیث یا سنت کی ہیبت اور احترام کو نکالنے میں خاصا کام کیا ہے تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا۔ حدیث اور فقہاء کی اس بحث میں میں نے علامہ انور کشمیری اور محمد زاہد کوثری کے اسلام مخالف افکار و آراء کا جائزہ لے کر دکھایا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنے علم حدیث کے ذریعہ مسلمانوں کو جہاں کتاب و سنت سے ماخوذ فقہی احکام سے دور کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے وہیں ان کے ذہنوں کو متکلمین اور صوفیا کے باطل عقائد سے مسموم بھی کیا ہے۔
[1] فتاوٰی: ص ۲۶۴