کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 454
مثال کے طور پر آیۃ الکرسی قرآن پاک کی عظیم ترین آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے پانچ اسماء اور ۲۶ صفتیں بیان ہوئی ہیں اور حدیث میں اس کو عظیم ترین آیت قرار دیا گیا ہے۔[1]
اسی طرح سورۂ اخلاص قرآن کی افضل ترین سورت ہے جو ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔[2]
احادیث میں دوسری آیتوں اور سورتوں کے فضائل بھی بیان ہوئے ہیں ۔
جہالت دلیل نہیں ہے:
حدیث سے لاتعلقی اور غیروابستگی احناف کی پہچان ہے اوپر شاہ ولی اللہ کا یہ قول گزر چکا ہے کہ ’’علمائے احناف ہمیشہ سے علم حدیث کے ساتھ کم وابستگی رکھتے رہے ہیں ۔‘‘ اس تناظر میں بہت ساری سنتوں کا احناف کی کتابوں اور اعمال میں کوئی ذکر نہیں ملتا، انہی سنتوں میں جمعہ کی نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت کا مسئلہ بھی ہے جس کا ذکر احناف اس اعتبار سے نہیں کرتے کہ یہ حدیث سے ثابت سنت نبوی ہے، بلکہ اس کو شوافع کے مسلکی عمل کے طور پر جانتے اور مانتے ہیں ۔
مولانا عبدالحی لکھنوی کا مسلک:
برصغیر کے مشہور حنفی عالم مولانا عبدالحی لکھنوی اہل حدیثوں سے نفرت میں تو عام علمائے دیوبند سے مختلف نہیں تھے، البتہ علم بالحدیث اور عمل بالسنۃ میں ان سے کافی مختلف تھے۔ بسا اوقات امام ابوحنیفہ کے مخالفِ سنت قول و مسلک پر تنقید بھی کر جاتے تھے جو ان کی حق پسندی کی دلیل ہے۔
مولانا عبدالحی نے جمعہ کی نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت اور عدم تلاوت کے مسئلہ میں شوافع اور احناف دونوں کے طرز عمل کو غیر مستحسن قرار دیا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ شوافع کی طرح اس پر بصورت دوام عمل سے ان سورتوں کے تعیین و تخصیص کا تاثر ملتا ہے جو مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس سے بہت سے مفاسد رونما ہوتے ہیں خاص طور پر حرم محترم میں جن میں سے ایک کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں نے حرم میں اژدہام کے موقع پر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ امام کے پہلی رکعت میں سجدۂ تلاوت کے موقع پر جاہل مقتدی رکوع میں چلے جاتے ہیں اور امام کے سجدہ سے کھڑے ہونے کے وقت اپنا سر اٹھا لیتے ہیں اور یہ خیال کر کے ان کو حیرانی ہوتی ہے کہ فجر کی تین رکعتیں ہیں ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’جو عجیب باتیں معلوم ہوئی ہیں وہ یہ کہ بعض عجمی حجاج جب بخاری واپس گئے تو وہاں کے لوگوں کو بتایا کہ
[1] مسلم: ۸۱۰
[2] بخاری: ۵۰۱۳، ۵۰۱۵، مسلم: ۸۱۱