کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 453
اس مسئلہ کی کوئی دلیل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، گویا شریعت سازی کا حق ان کو بھی حاصل ہے، جبکہ ان کی اس عبارت کی زد براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے عمل اور ایک ایسی سنت پر پڑتی ہے جس پر آپ کا دوام تھا۔ بحیثیت ایک فقیہ کے مرغینانی کو یہ بات معلوم رہی ہو گی کہ وہ جس عمل کو ’’مکروہ‘‘ قرار دے رہے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا عمل ہے جو صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے اور امت محمد کے ایک فرد ہونے کے ناطے ان کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنے اس سنگین قول کے حق میں کوئی دلیل دیتے اور ان حدیثوں میں سے کسی حدیث کی ایسی تشریح کر کے اس کو قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے جو حدیث کے سیاق و سباق اور اس کے مدلول سے ہم آہنگ ہوتی۔ مثال کے طور پر وہ یہ فرما سکتے تھے کہ: ’’صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز فجر میں پابندی سے سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت فرماتے تھے جس پر ’’کان یقرأ‘‘ کا اسلوب واضح دلیل ہے، اور جو ائمہ بآسانی اس سنتِ رسول کی پابندی کر سکتے ہوں وہ اس کی پابندی کریں اور اس کو اپنے لیے باعث اجر و ثواب تصور کریں ، اور جو کسی وجہ سے بصورت دوام ایسا نہ کر سکیں وہ کبھی کبھار ان دونوں سورتوں کی مذکورہ نماز میں تلاوت کر لیا کریں اور اگر کوئی جمعہ کی نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی کبھی بھی تلاوت نہ کرے تو اگر اس کے ایسا نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ اس کو سنت نہیں مانتا تو وہ گنہگار ہے، لیکن اس کی نماز صحیح ہے، اور اگر کوئی اس کو لازمی اور تاکیدی سنت نہیں مانتا تو اس کی نماز بھی صحیح ہے اور ایسا شخص اس کو سنت نہ ماننے والے سے زیادہ افضل ہے۔ رہا ایسا شخص جس کا دعویٰ ہے کہ جمعہ کی نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی بصورت دوام تلاوت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بقیہ قرآن قابل ترک ہے اور قرآن میں درجات ہیں ، اس لیے ان کی تلاوت مکروہ ہے تو ایسا شخص براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر معترض ہے جس کا حکم بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں سلسلۂ کلام کے اندر رہتے ہوئے یہ بیان کر دوں کہ بعض نمازوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پابندی سے بعض سورتیں پڑھا کرتے تھے مثال کے طور پر جمعہ کی پہلی رکعت میں سورۂ جمعہ،یا سورۂ اعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۂ منافقون یا سورۂ غاشیہ پڑھا کرتے تھے زیادہ تر سورۂ اعلیٰ اور سورۂ غاشیہ اور عیدین کی نمازوں میں سورۂ اعلیٰ اور سورۂ غاشیہ کی بصورت دوام تلاوت فرماتے تھے اسی طرح فجر کی سنتوں میں سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے۔‘‘[1] قرآنی آیات اور سورتوں میں درجات: موضوع کی مناسبت سے یہ واضح کر دوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کے اعتبار سے قرآن میں تفاضل اور درجات نہیں ہیں ، لیکن موضوعات کے اعتبار سے قرآنی آیات اور سورتوں میں درجات ہیں اور احادیث سے ثابت بھی ہیں ۔
[1] مسلم: ۸۷۷، ۸۷۸، ابو داود: ۱۱۲۳، ۱۱۲۴، ترمذی: ۵۱۹، نسائی: ۱۴۲۲، ابن ماجہ: ۱۱۱۸، ۱۱۱۹