کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 452
مستحب نہیں سنت:
مذکورہ بالا چاروں حدیثوں کے اسلوب بیان اور ان حدیثوں کی مخالف کوئی حدیث نہ ہونے سے جو چیز یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ جمعہ کی نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورۂ سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دہر کی تلاوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھی جس کی مزید تاکید طبرانی کی المعجم الصغیر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ’’یدیم ذلک‘‘ سے ہوتی ہے۔ اگر طبرانی کی روایت کی سند میں کوئی جھول ہوتا تو حافظ زیلعی اس کو ضرور بیان کر دیتے، کیونکہ اس سے ان کے حنفی مسلک پر زد پڑتی ہے۔ چاروں حدیثوں کے اسلوب بیان کی قوت کو حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجر دونوں نے محسوس کیا ہے۔ دونوں محدث بھی تھے اور زبان داں بھی، حافظ زیلعی نے تو اپنا اصول توڑ کر ہدایہ کے فقہی حکم پر کلام کیا ہے، ورنہ ان کی کتاب ’’نصب الرایہ‘‘ کا موضوع ہدایہ کے فقہی احکام پر تبصرہ کرنا نہیں ، بلکہ اس میں زیر استدلال حدیثوں کی صحت و سقم کو دلائل کے ساتھ بیان کرنا ہے۔
جب یہ بات واضح اور مبرہن ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز فجر میں پوری پابندی سے اور بشکل دوام سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت فرماتے تھے تو آپ کے اس عمل کو مستحب قرار دینا، سنت نہ قرار دینا اتباع رسول کے حکم قرآنی کی خلاف ورزی ہے اور آپ کے عمل کو نمونہ تقلید بنانے سے اعراض بھی، مجھے غیر اہل حدیثوں سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی گلہ ہے تو اپنے بعض اہل حدیث بھائیوں سے جنہوں نے جمعہ کی نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت کو مستحب قرار دیا ہے۔ جس عمل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اہتمام سے پابندی کی ہو اگر وہ سنت نہیں صرف مستحب ہے تو پھر آپ کے نمونۂ تقلید اور اسوۂ حسنہ ہونے کے کیا معنیٰ؟!!!
صاحب ہدایہ کی مذموم جسارت:
ہدایہ کے مصنف علامہ مرغینانی کتاب الصلاۃ کے باب صفۃ الصلاۃ کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
((و یکرہ ان یوقت بشیء من القرآن لشیء من الصلوات لما فیہ ایہام من ہجر الباقی و ایہام التفضیل)) [1]
’’اور یہ مکروہ ہے کہ قرآن کے کسی حصے کو کسی نماز کے لیے متعین اور خاص کیا جائے، کیونکہ ایسا کرنے میں یہ خیال مضمر ہے کہ باقی قرآن قابل ترک ہے اور اس سے قرآن کے بعض حصے کے بعض سے افضل ہونے کا تاثر ملتا ہے۔‘‘
اس قابل گرفت اور مذموم عبارت پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ یاد دلا دوں کہ مرغینانی نے اپنی اس کتاب میں اپنے من گھڑت فقہی احکام پر بے اصل، موضوع اور ضعیف روایتوں سے استدلال کر کے اپنی حدیث دانی کا ثبوت دیا ہے، مگر
[1] ص: ۱۰، ج: ۲