کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 450
ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی لائے تھے کہ: ((و لیؤمکم اکثرکم قرآنا)) [1] ’’اور چاہیے کہ تمہاری امامت تم میں سے سب سے زیادہ قرآن والا کرے۔‘‘ اگر نابالغ بچے کی امامت جائز نہ ہوتی تو آپ نے اسے بیان کر دیا ہوتا۔ جیسا کہ ابو مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ نے امام کے مزید اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں اور جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی منع نہ فرمایا ہو وہ صاحب ہدایہ کے کہنے سے تو ناجائز نہیں ہو سکتی، یہ تو شارع کا منصب ہے۔ ۲۔ دوسری بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کی حیات پاک میں دین و شریعت سے متعلق ہونے والا ہر فعل اور ہر قول آپ کے علم میں آئے، اس کی اطلاع صاحب فعل یا قول آپ کو خود دے یا صحابہ میں سے کوئی دے اور اگر کوئی نہ دے تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو یہ اطلاع دے دی ہوتی کہ فلاں جگہ کچھ لوگ ایک نابالغ لڑکے کے پیچھے باقاعدہ فرض نمازیں پڑھ رہے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے بھی جو علام الغیوب ہے اپنے بندے اور رسول کو بذریعہ وحی نابالغ بچے کی امامت کے عدم جواز کی خبر نہیں دی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نابالغ لڑکے کی امامت کو ناجائز کہنا، شریعت سازی ہے یا اللہ و رسول کو چیلنج کرنا ہے۔ یاد رہے کہ ’’فتاوی عالمگیری‘‘ میں امامت کے نااہلوں کی فہرست چھ صفحات میں بیان ہوئی ہے، اس پر میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل کر دینا چاہتا ہوں : ﴿وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَے اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَo﴾ (النحل: ۱۱۶) ’’جس چیز کا تمہاری زبانیں جھوٹا وصف بیان کرتی ہیں اس کو یہ مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام تاکہ اللہ پر جھوٹ گھڑو، درحقیقت جو اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں وہ فلاح یاب نہیں ہوتے۔‘‘ جمعہ کی نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت ۱۔پہلی حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : ((کان النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یقرأ فی الجمعۃ فی صلاۃ الفجر ’’الٓمٓ تنزیل‘‘ و ’’ہل اتی علی الانسان‘‘))[2]
[1] بخاری: ۴۳۰۲، ابو داود: ۵۸۶، نسائی: ۷۸۸ [2] بخاری ۸۹۱، ۱۰۶۸، مسلم ۸۸۰، مسند احمد: ۱۰۱۰۲