کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 45
ہیں ‘ قران پاک میں ظن کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اس کو میں پوری تفصیل سے اور مثالوں کے ذریعہ واضح کر چکا ہوں ، ملاحظہ فرما لیں ، بوطی کا یہ دعویٰ بھی سراسر جھوٹ ہے کہ قرآن پاک نے عقیدہ کی بحث کے میدان میں ظن کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے، حقیقت میں قرآن وحدیث میں دین کو عقیدہ وعمل یا اصول وفروع میں تقسیم ہی نہیں کیا گیا ہے۔ یہ تو معتزلہ، متکلمین، فقہا اور ان کے ہم مشربوں کی اپنی اپج ہے اس مسئلہ کی مزید وضاحت آگے آ رہی ہے۔ ۴۔ سیّد سلیمان ندوی کی تحقیق: مولانا سیّد سلیمان ندوی بحث وتحقیق کے میدان میں بہت بڑا نام ہیں ان کی تصنیفات میں سیرت النبی اور خطبات مدراس کافی گراں قدر ہیں : لیکن ان کی آخری زندگی میں فکرو عقیدہ اور سلوک کے اعتبار سے ان کی جو کایا پلٹ ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قدیم رنگ پختہ نہیں تھا، ورنہ سیرت النبی اور خطبات مدراس جیسی کتابوں کا مصنف ایک صوفی کی خانقاہ کی چوکھٹ پر جبہہ سائی کیوں کرتا اور علامہ سیّد سلیمان ندوی سے مولوی سلیمان کیوں بنتا؟!! حدیث اور سنت میں فرق کے حوالہ سے مولانا ندوی کا ذکر آچکا ہے، عقائد کے باب میں ’’خبر واحد‘‘ کے نا قابل استدلال ہونے کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اسلام کے ایک چھوٹے سے فرقہ کے سوا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ غالی ظاہریہ کے سوا کوئی اس کا قائل نہیں کہ عقائد کا ثبوت قرآن کے علاوہ کسی اور طور سے ہو سکتا ہے، کیونکہ عقیدہ نام ہے یقین کا اور یقین کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ وحی اور اس وحی کا تواتر ہے، اس لیے عقائد کا مبنی صرف قرآن پاک یا احادیث متواتر ہیں ، ظاہر ہے کہ احادیث متواترہ کا مطلق وجود نہیں ، ایک یا دو سے زیادہ نہیں ، ایسی حالت میں عام احادیث عقائد کا مبنی نہیں قرار پا سکتی ہیں ، عموماً احادیث روایت آحاد ہیں اور ان کا ایک حصہ مستفیض ’’مشہور‘‘ ہے۔ یعنی صحابہ کے بعد ان کے راویوں کی کثرت ہوئی، اس لیے یہ روایتیں صرف قرآن پاک کی آیات کی تائید میں کام آ سکتی ہیں ، مستقلاً ان سے عقائد کا ثبوت نہیں حاصل کیا جا سکتا۔‘‘ [1] دیکھئے کس ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کر دیا کہ غالی ظاہر یہ کے سوا کوئی اس کا قائل نہیں کہ عقائد کا ثبوت قرآن کے علاوہ کسی اور طور سے ہو سکتا ہے‘‘ جبکہ یہ نظریہ معتزلہ، متکلمین اور جدید دَور کے اہل قرآن کا ہے، صحابہ، تابعین، محدثین اور تمام ائمہ فقہ کے یہاں عقائد اور غیر عقائد، اور خبر واحد اور خبر متواتر کی کوئی بحث نہیں ملتی، علامہ نے یہ نہیں بتایا کہ ’’عام احادیث‘‘ کی تعریف کیا ہے اور خاص احادیث کسے کہتے ہیں ؟ حدیث مستفیض یعنی مشہور کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’صحابہ کے بعد ان کے راویوں کی کثرت ہوئی‘‘ جبکہ ایسی بہت سی احادیث ہیں جن کے راوی صحابہ کرام کی تعداد دس ۱۰ یا اس سے زیادہ ہے، مثال کے طور پر نماز میں ’’رفع یدین‘‘ کی حدیث کے راویوں کی تعداد ۲۶ سے زیادہ ہے۔
[1] مقالات سلیمان ص ۱۴۰۔ ۱۴۱