کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 449
’’والشمس و ضحاہا‘‘ و ’’سبح اسم ربک الاعلی‘‘ و نحوہما)) [1] ’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم کے پاس آتے اور ان کو وہی نماز پڑھاتے، اور ان کو بقرہ پڑھا دی، جابر کہتے ہیں : ایک آدمی نے قراء ت مختصر کر کے ہلکی نماز پڑھ لی، جس کی خبر معاذ کو ہوئی تو انہوں نے کہہ دیا: وہ منافق ہے اور یہ بات اس شخص کو پہنچی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں اور اپنے اونٹوں سے پانی پلاتے ہیں ، اور معاذ نے گزشتہ رات ہمیں نماز پڑھائی تو بقرہ کی قراء ت شروع کر دی، لہٰذا میں نے قراء ت مختصر کر دی اور انہوں نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ’’میں منافق ہوں ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم فتنہ پرداز ہو؟ -یہ بات آپ نے تین بار فرمائی- ’’و الشمس و ضحاہا‘‘ اور ’’سبح اسم ربک الاعلی‘‘ اور ان کی مانند سورتیں پڑھا کرو۔‘‘ یہ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے اور اس امر پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں فرض نمازیں ادا کرنے کے بعد اپنی قوم میں واپس جا کر وہی نمازیں ان کو پڑھاتے جو ان کے حق میں تو نفل ہوتیں اور ان کی قوم کے لوگوں کے حق میں فرض اور اس حدیث کے مطابق جب ایک بار انہوں نے نماز میں سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی تو ایک صحابی نے تلاوت مختصر کر کے ہلکی نماز پڑھ لی، زیر بحث حدیث میں انہی کا قصہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سننے کے بعد معاذ رضی اللہ عنہ کو مختصر سورتیں پڑھنے کا حکم دیا اور ان کو یہ حکم نہیں دیا کہ میری امامت میں جو نمازیں پڑھتے ہو وہ اپنی قوم کو دوبارہ نہ پڑھاؤ، کیونکہ وہ تمہاری نفل نمازیں ہیں اور نفل نماز پڑھنے والے کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ فرض نماز پڑھنے والوں کی امامت کرے۔ ۴۔ چوتھی حدیث: یہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو اوپر گزر چکی اور خود انہی کی امامت سے متعلق بھی ہے اس حدیث کے مطابق وہ اپنی قوم کے لوگوں کو چھ یا سات برس کی عمر میں امامت کراتے تھے اور یہ روز کا معمول تھا، کوئی اتفاقی امر نہیں تھا۔ اشکال: … عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی امامت کے مسئلہ میں یہ اشکال پیش کیا جا سکتا ہے اور پیش کیا بھی گیا ہے کہ یہ ان کا عمل تھا اور ان کی قوم کے لوگوں نے ان کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی ارشاد مبارک میں صراحتاً یا اشارۃً ایسا کوئی حکم نہیں دیا ہے جس سے نابالغ بچے کی امامت پر استدلال کیا جائے۔ ۱۔ اس اشکال کے جواب میں پہلی بات تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عمرو بن سلمہ کے والد سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات حاصل کرنے اور آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے بعد اپنی قوم میں واپس آئے تھے اور اپنے
[1] بخاری: ۶۱۰۶، مسلم ۴۶۵، مسند احمد: ۱۱۹۸۲، ۱۲۲۴۷، ۱۴۱۹۰، ۱۴۰۲۲، ۱۴۳۰۷