کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 446
۳۔ نابالغ لڑکے کی امامت: علامہ مرغینانی تحریر فرماتے ہیں : ’’مردوں کے لیے عورت اور بچے کی اقتداء جائز نہیں ہے، جہاں تک عورت کا مسئلہ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((اخروہن من حیث اخرہن اللہ)) ’’ان کو وہاں سے پیچھے کرو جہاں سے اللہ نے انہیں پیچھے کیا ہے۔‘‘ ’’رہا لڑکا تو چونکہ وہ نفل نماز ادا کرنے والا ہوتا ہے اس لیے فرض ادا کرنے والے کا اس کی اقتدا کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘[1] تبصرہ: صاحب ہدایہ نے نابالغ لڑکے کی امامت کو عورت کی امامت کی مانند قرار دے کر دونوں کی امامت پر ایک ہی حکم لگا دیا ہے، جبکہ عورت کی عدم امامت منصوص ہے اور لڑکے کی امامت حدیث سے ثابت ہے۔ جائز اور ناجائز اور مکروہ شرعی اصطلاحیں ہیں : مرغینانی نے امامت اور غیر امامت کے مسائل میں مکروہ، غیر مکروہ ، جائز اور ناجائز کی تعبیریں بکثرت استعمال کی ہیں ، جبکہ ان کے جو دلائل دیے ہیں یا تو وہ بے اصل اور من گھڑت روایتیں ہیں ، یا قیاسی ہیں ، جیسا کہ یہاں عورت اور لڑکے کی امامت کے عدم جواز کے مسئلہ میں کیا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ بلا کسی دلیل کے کسی چیز کو جائز یا ناجائز یا مکروہ یا غیر مکروہ قرار دے اور دلیل نہ تو باطل روایتیں ہے اور نہ محض قیاس۔ بے اصل روایت سے استدلال: مرغینانی نے ایک بار پھر عورتوں کی عدم امامت پر ایک بے اصل روایت سے استدلال کر کے حدیث سے اپنی عدم واقفیت کا ثبوت دے دیا ہے، حالانکہ اس مسئلہ میں صحیح حدیث موجود ہے اور انہوں نے جس عبارت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہہ کر نقل کیا ہے اس کا ’’حدیث رسول‘‘ کی حیثیت سے کوئی وجود نہیں ہے خود زیلعی حنفی نے اس کو بے اصل اور باطل قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ مصنف عبدالرزاق میں وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی حیثیت سے مروی ہے۔ (ص ۳۹) ضعیف، منکر اور موضوع اور بے اصل روایتوں کے تمام مجموعوں کے مصنفین نے ہدایہ کی اس روایت کو بے اصل قرار دیا ہے۔[2]
[1] ص ۳۹، ج ۲ [2] ملاحظہ ہو: المقاصد الحسنۃ نمبر ۴۱، الاسرار المرفوعہ نمبر ۱۸، الضعیفہ نمبر ۹۱۸، موسوعۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعہ نمبر ۸۸۴، تحذیر المسلمین نمبر ۸۰ وغیرہ