کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 445
اس حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی ہے جس کو امام محمد بن حبان نے اپنی صحیح میں بے داغ سند سے نقل کیا ہے، فرماتے ہیں : ہم سے حسن بن سفیان نے بیان کیا، کہا: ہم سے حبیب معلم نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ: ((ان النبی صلي اللّٰه عليه وسلم استخلف ابن ام مکتوم علی المدینۃ یصلی بالناس)) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم کو مدینہ پر اپنا جانشین بنایا جو لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔‘‘ ان حدیثوں سے نابینا کی امامت کی صحت پر بصراحت دلالت ہوتی ہے۔ غیر معتبر روایت سے استدلال: مرغینانی نے غلام، اعرابی، ولد الزنا، فاسق اور نابینا کی امامت کے، کسی شرعی دلیل کے بغیر مکروہ ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’اگر یہ امامت کے لیے آگے بڑھ جائیں تو جائز ہے‘‘ اور اس کی دلیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب یہ ارشاد پیش کیا ہے: ((صلوا خلف کل بر و فاجر)) ’’ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘ تو ان کا یہ استدلال دو وجہوں سے قابل گرفت ہے: ۱۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اپنے عدم ثبوت اور اپنی عدم صحت کی وجہ سے یہ قول ناقابل استدلال ہے اس روایت کے صحیح نہ ہونے کا حکم جن علمائے حدیث نے لگایا ہے ان میں ایک بڑا نام حافظ ابو محمد عبداللہ بن یوسف زیلعی حنفی کا بھی ہے جنہوں نے اپنی کتاب ’’نصب الرایہ‘‘ میں اس کی سند پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور محدثین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کے راوی مکحول کا ان سے سماع ثابت نہیں ہے اور سنن دارقطنی میں اس کی جو دوسری سند بیان ہوئی ہے اس میں عبداللہ بن محمد شامل ہے جو ’’متروک الحدیث‘‘ تھا۔[2] ۲۔ صاحب ہدایہ کا دعویٰ دوسری جس وجہ سے قابل گرفت ہے وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک چونکہ یہ حدیث صحیح ہے، لہٰذا ان کا یہ دعویٰ مردود ہے کہ غلام، اعرابی، فاسق، نابینا اور ولد الزنا کی امامت مکروہ ہے، لیکن اگر وہ امامت کے لیے آگے بڑھ جائیں تو جائز ہے۔ کیونکہ اس روایت کے الفاظ سے ان کے مذکورہ دعویٰ کی تائید ہونے کے بجائے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ مذکورہ صفات سے موصوف افراد کی امامت بلا کسی کراہت کے مطلقاً درست ہے؟!! فاعتبروا یا اولی الابصار۔
[1] صحیح ابن حبان ، نمبر ۲۱۳۴-۲۱۳۵ [2] ص ۲۹-۳۰، ج ۲