کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 444
حافظ ابن حجر نے یہ بھی لکھا ہے کہ سالم انصاری کی ایک خاتون کے غلام تھے جن کو انہوں نے بعد میں آزاد کر دیا تھا اور جب وہ مہاجرین کے پہلے قافلے کی امامت کر رہے تھے اس وقت تک آزاد نہیں کیے گئے تھے، اور آزاد کر دیے جانے کے بعد ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ نے ان کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، اور وہ انہی کے ساتھ رہنے لگے تھے اسی وجہ سے ان کو مولیٰ ابی حذیفہ کہا جاتا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جنگ یمامہ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ [1] ۲۔ نابینا کی امامت: امام احمد فرماتے ہیں : ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے عمران بن قطان سے، انہوں نے قتادہ سے اور انہوں نے انس سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ: ((استخلف رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم ابن ام مکتوم مرتین علی المدینۃ)) ’’…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم کو دو بار مدینہ پر اپنا قائم مقام بنایا۔‘‘ [2] اس حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نماز میں لوگوں کی امامت کرتے تھے، اگرچہ آپ کی قائم مقامی میں امامتِ نماز سرفہرست ہے، لیکن امام احمد نے یہی حدیث ایک دوسری سند سے روایت کی جس میں امامت کی تصریح ہے: ہم سے بہز نے بیان کیا، کہا: ہم سے ابو عوام قطان نے جو عمران بن داور ہیں اور جو نابینا ہیں ، بیان کیا، کہا: ہم سے قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ: ((ان رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم استخلف ابن ام مکتوم علی المدینۃ مرتین یصلی بہم و ھو اعمی)) [3] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم کو دو بار مدینہ میں اپنا جانشین بنایا جو لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے، جبکہ وہ نابینا تھے۔‘‘ ان دونوں سندوں کے تمام راوی، عمران بن قطان یا عمران بن داور کے علاوہ ثقاہت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے، البتہ عمران حفظ و ضبط میں ’’حسن‘‘ درجہ پر تھے۔ امام بخاری نے عمران بن قطان کی مرویات کا ذکر ’’معلق‘‘ صورت میں کیا ہے، لیکن ائمہ سنن نے ان کی مروی حدیثیں موصول صورت میں روایت کی ہیں اور زیر بحث حدیث کو امام ابو داود نے (۵۹۵،۔ ۲۹۳۱) ابن جارود نے (۳۱۰) اور ابو یعلیٰ نے (۳۱۱۰، ۳۱۳۸) عبدالرحمن بن مہدی کے طریق سے نقل کیا ہے۔
[1] فتح الباری: ص ۵۹۱، ج ۱ [2] ۱۲۳۴۴۔ [3] ۱۳۰۰۰