کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 443
سے پہلے حرف نداء استعمال کیا ہے اور منادیٰ کو صفتِ ایمان سے موصوف فرمایا ہے جس سے یہ تاکید مقصود ہے کہ اللہ و رسول کے احکام پر سرتسلیم خم کر دینا اور ان سے آگے نہ جانا ایمان کا تقاضا ہے۔ ۱۔ غلام کی امامت: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے: ’’باب امامۃ العبد و المولی‘‘ ’’غلام اور آزاد کردہ غلام کی امامت کا باب۔‘‘ اس باب کے تحت وہ پہلے ایک معلق حدیث لائے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے کہ عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ذکوان ان کی امامت کرتے تھے جو مصحف کو دیکھ کر تلاوت کرتے تھے۔ یہ حدیث اگرچہ معلق ہے، لیکن صحیح ہے اس لیے کہ امام بخاری نے اس کا ذکر یقینی صیغے میں کیا ہے۔ ذکوان کی امامت کے بعد ’’باب امامۃ العبد و المولی‘‘ کے لفظ المولی پر عطف کرتے ہوئے بخاری نے لکھا ہے: ((و ولد البغی و الاعرابی و الغلام الذی لم یحتلم لقول النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یؤمہم اقرؤہم لکتاب اللّٰہ)) ’’اور ولد الزنا، اور دیہاتی اور نابالغ لڑکے کی امامت کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ان کی امامت ان میں کتاب اللہ کا سب سے زیادہ حافظ کرے۔‘‘ اس کے بعد امام بخاری عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث لائے ہیں جس کے الفاظ ہیں : ((لما قدم المہاجرون الاولون العصبۃ، موضع بقباء، قبل مقدم رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم کان یؤمہم سالم مولی ابی حذیفۃ، و کان اکثرہم قرآنا)) [1] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے پہلے مہاجرین قباء کے ایک مقام ’’عصبہ‘‘ پہنچے تو ابو حذیفہ کے ’’مولی‘‘ سالم ان کی امامت کرتے تھے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن والے تھے۔‘‘ بخاری یہی حدیث دوبارہ نمبر ۷۱۷۵ کے تحت بھی لائے ہیں جس کی روایت نافع سے ابن جریج نے کی ہے، جبکہ اس زیر بحث حدیث کی روایت عبیداللہ نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے کی ہے۔ اس دوسری روایت میں سالم کی امامت میں نماز ادا کرنے والوں میں عمر، ابو سلمہ، زید بن ثابت اور عامر بن ربیعہ کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہم کا بھی ذکر ہے، جبکہ یہ معلوم ہے کہ ابوبکر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تھی، اس کی توجیہ امام بیہقی نے یہ کی ہے کہ سالم ان مہاجرین کی امامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری تک کرتے رہے تھے اور قباء آمد پر ابوبکر نے سالم کی امامت میں نمازیں ادا کی تھیں ۔ ابن اسحاق کے مطابق پہلے مہاجرین میں ۲۰ افراد شامل تھے۔[2]
[1] صحیح بخاری: ۶۹۲۔ [2] فتح الباری: ص ۳۲۱۸، ج ۳۔