کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 442
امامت کے نا اہل: صاحب ہدایہ نے امامت کے نااہلوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا ہے، ایک گروپ تو ایسے نااہلوں پر مشتمل ہے جن کو امام بنانا مکروہ ہے، لیکن ان میں سے کسی کو امام بنا دیا جائے تو کراہت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔ دوسرا گروپ وہ ہے جس کی امامت میں نماز جائز ہی نہیں ہے۔ جن لوگوں کو امام بنانا مکروہ ہے یا جن کی امامت میں نماز کراہت کے ساتھ جائز ہے، ان میں غلام، دیہاتی -اعرابی، بدو- فاسق، نابینا اور ولد الزنا داخل ہیں ۔ مرغینانی نے مذکورہ افراد کو امام نہ بنانے کے جو دلائل دیے ہیں وہ سب عقلی، قیاسی یا فرضی ہیں ، ان میں سے کوئی دلیل بھی کتاب و سنت سے ماخوذ نہیں ہے۔ فرماتے ہیں : ’’غلام کو امامت کے لیے آگے بڑھانا مکروہ ہے اس لیے کہ وہ تعلیم کے لیے فارغ اور یکسو نہیں ہو سکتا اور عرب دیہاتی کو اس لیے کہ ان میں جہالت عام ہوتی ہے اور فاسق کو اس لیے کہ وہ اپنے دینی امور کے ساتھ اہتمام نہیں برتتا اور نابینا کو اس لیے کہ وہ ناپاکی سے نہیں بچتا اور ولد الزنا کو اس لیے کہ اس کا کوئی باپ نہیں جو اسے شائستگی سکھائے اور اس لیے بھی کہ امامت کے لیے ان کو آگے بڑھانے میں جماعت کو متنفر بنانا مضمر ہے، لہٰذا مکروہ ہے اور اگر وہ آگے بڑھ جائیں تو جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((صلوا خلف کل بر و فاجر)) [1] ’’ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘ صاحب ہدایہ نے مذکورہ بالا جن لوگوں کو امام بنانا مکروہ قرار دیا ہے اولاً تو وہ ان کی رائے پر مبنی ہے ثانیاً ان میں غلام اور نابینا کی امامت صحیح احادیث سے ثابت ہے، ثالثاً ولد الزنا یا جس کا باپ نامعلوم ہو اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلمانوں کا دینی بھائی قرار دیا ہے۔[2] ان تمام وجوہ سے مرغینانی کے بیان کردہ اس شرعی حکم پر عمل کرنا اللہ و رسول کی نافرمانی اور ان کے حکم پر غیر شارع کے حکم کو مقدم کرنا ہے جو حرام ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo﴾ (الحجرات: ۱) ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو اور اللہ کے غضب سے بچو درحقیقت اللہ سب کچھ سننے والا، تمام چیزوں کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیت کی رو سے ایسے کسی عمل کو مکروہ قرار دینا جس کو اللہ اور رسول نے مکروہ قرار نہ دیا ہو، ان سے آگے بڑھنا اور ان سے پیش قدمی کرنا ہے اور اللہ و رسول پر ایمان لانے کے منافی ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بیان کرنے
[1] ص ۲۹، ج ۲ [2] سورۂ احزاب: ۵