کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 441
’’پھر سب سے زیادہ روشن چہرے والا، پھر سب سے بڑے حسب والا، پھر سب سے اچھی آواز والا، پھر سب سے زیادہ خوبصورت بیوی والا، پھر سب سے زیادہ مال دار، پھر سب سے بڑے رتبے والا، پھر سب سے بڑے سر والا، پھر سب سے چھوٹے ’’عضو‘‘ والا، پھر مقیم کو مسافر پر مقدم رکھا جائے، پھر اصلی آزاد کو آزاد کردہ غلام پر ترجیح دی جائے، پھر حدث اصغر پر تیمم کرنے والے کو جنابت پر تیمم کرنے والے پر مقدم رکھا جائے، پھر اگر لوگوں میں اختلاف باقی رہے تو اکثریت کے اختیار کا اعتبار ہو گا۔‘‘ تبصرہ: ان دونوں عبارتوں میں نماز کے امام کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ، حدیث سے ان کی کوئی دلیل نہیں دی گئی ہے اور ان کی کوئی دلیل ہے بھی نہیں ۔ یہ قیاس اور اجتہاد پر بھی مبنی نہیں ہیں ، کیونکہ قیاس اور اجتہاد ’’نص‘‘ کے نہ ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے، جبکہ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے اوصاف بیان فرما دیے ہیں ، جو ان دونوں عبارتوں میں بیان کردہ اوصاف سے مختلف ہیں اور کم بھی۔ مذکورہ اوصاف میں ’’خوبصورت بیوی رکھنے اور چھوٹا عضو رکھنے کی صفت کا ذکر بے حد شرم ناک ہے اور کسی مسلمان کے شایان شان یہ بات نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی بیویوں کی خوبصورتی اور بدصورتی کی کھوج لگائے اور کسی کے عضو تناسل کی لمبائی اور چھوٹائی ناپنا تو ایسا مذموم اور مکروہ فعل ہے جس کا ایک شریف آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مذکورہ بالا اوصاف پر عمل کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینے کے منافی ہے، کیونکہ قرآن کے مطابق رسول بھیجا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ [1] اس تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میں تبدیلی کرنا، یا کمی بیشی کرنا، آپ کی اطاعت نہیں ، آپ کی حکم عدولی، بلکہ کار رسالت میں آپ کے ساتھ اپنے آپ کو شریک بنانا ہے، جو کفر ہے۔ ایک بار پھر یہ واضح کر دوں کہ محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے اور آپ کی رسالت پر ایمان کی گواہی دینے کا مطلب مختصراً یہ ہے کہ آپ نے جو خبریں دی ہیں ان کی تصدیق کی جائے، جو حکم دیا ہے اس کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے۔ جن چیزوں سے منع فرمایا ہے ان سے باز رہا جائے اور اللہ کی عبادت صرف اسی طریقے سے کی جائے جو آپ نے متعین فرما دیا ہے۔ مذکورہ اوصاف کو نماز کے امام کے اوصاف قرار دینے والا اپنے عقیدے، قول اور فعل سے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ تکمیل دین کے ’’اعلان ربانی‘‘ کو نہیں مانتا اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ فقہاء بھی شرعی احکام بنانے اور ان کو فرض و واجب قرار دینے کے مجاز ہیں ۔
[1] سورۂ نساء: ۲۴